بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک عورت کے رضاعت کے دعویٰ سے حرمت رضاعت کے ثبوت کا حکم


سوال

 ایک عورت جس کےآخری بچہ کی پیدائش 1980ء میں ہوئی ہواوراس کے بعد اس کاکوئی بچہ نہ ہواہو اوراسی عرصہ میں اس کےخاوندکابھی انتقال ہواہواوراس کے تقریبا24سال بعدوہ عورت اپنی پوتی کودودھ پلائے اوراس کوخوددودھ پلانابھی یادنہ ہوبلکہ دوسری عورت حلفًایہ کہہ دیں کہ میں نے اس کودوھ پلاتےدیکھاہے، بظاہراس عورت کا کثرت عمر کی وجہ سے دودھ بھی نہیں ہے ، آیایہ بچی اس عورت کی رضاعی بیٹی ہوئی یانہیں اوراس بچی کانکاح اس عورت کے نواسے سے جائزہے یانہیں ، آیاوہ بچی اس لڑکےکی رضاعی خالہ ہوئی یانہیں اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

 شرعی نقطہ نظرسےرضاعت کے ثبوت کےلیےدو عادل مردوں یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔چونکہ مسئلہ زیربحث میں شہادت کا نصاب مکمل نہیں  ہے اس لیے صرف ایک عورت  کی گواہی سےمذکورہ عورت کی پوتی اس کی رضاعی بیٹی نہیں ہوئی لہذامذکورہ عورت کی پوتی کانکاح اس کے نواسے کے ساتھ   جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"‌الرضاع ‌يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول........ولو تزوج امرأة فقالت امرأة أرضعتكما فهو على أربعة أوجه إن صدقاها فسد النكاح ولا مهر لها إن لم يدخل بها وإن كذباها فالنكاح بحاله...........وإن صدقها الرجل وكذبتها المرأة فسد النكاح والمهر بحاله وإن صدقتها وكذبها الرجل فالنكاح بحاله ولكن لها أن تحلفه ويفرق إذا نكل كذا في التهذيب."

(الفاوي الهندية ، كتاب الرضاع، 1/ 347 ط: رشيدية )

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي  لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها).

(قوله: حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله: وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعًا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قيله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع."

(3/ 224، باب  الرضاع، ط: سعید)

        البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ويثبت بما يثبت به المال) وهو شهادة رجلين عدلين أو رجل وامرأتين عدول لأن ثبوت الحرمة لا يقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لا يثبت إلا بشهادة رجلين ... أفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد رجلًا أو امرأةً وهو بإطلاقه يتناول الإخبار قبل العقد وبعده وبه صرح في الكافي، والنهاية."

(3/232، کتاب الرضاع، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں