مجھے ایک مسئلہ کے بارے میں بات پوچھنا تھا، میرے والد محترم کا گھر جو تھا وہ گھر بیچ کے ہم نے وراثت تقسیم کر چکے ہیں، ہمارے گھر کے کاغذات پورے نہیں تھے، اب خریدار جو ہے وہ ضد کر رہا ہےکہ کاغذات مکمل کر دو ، میں چاہتا ہوں کہ جو خرچہ آ رہا ہے، مکمل خرچہ میں اٹھاؤ ں، پھر بعد میں بہن بھائیوں سے سب سے ایک برابر پیسہ وصول کر لوں گا ،کیا یہ درست ہے؟ یا جیسے ہم نے فتوی لیا تھا کہ بھائیوں کا پورا حصہ اور بہنوں کا آدھا حصہ؛ اس طریقہ سے وصول کرنا ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل مکان کےکاغذات مکمل کرنے کا خرچہ ورثاء کی اجازت کے بغیر خود ادا کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے تبرع شمار ہو گا اور بعد میں رجوع کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا، لہذا سائل کو چاہیے کہ پہلے تمام ورثاء سے اجازت لے لے پھر مکان کے کاغذات مکمل کروائےاور ہر وارث سے اس کے حصہ کے بقدر لے۔
تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب الکفالة جلد ۱ ص: ۲۸۸ ط: دارالمعرفة)
شرح المجلۃ میں ہے:
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم."
(الکتاب العاشر الشرکات ، المادۃ :۱۰۷۳ جلد ۳ص:۲۶ ط: دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404102097
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن