بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق رجعی دینے کے بعد قانونی تقاضا پورا کرنے کے لئے تین طلاق کے طلاق نامہ پر دستخط کرنا


سوال

واقعہ یہ ہے کہ میرا نکاح ہوا ہے پاکستان میں ، میں پاکستان کا رہائشی نہیں ہوں، اور نہ کوئی زیادہ میرا وہاں آنا جانا رہا ہے۔ جب میری رخصتی ہوئی تو دلہن میرے پاس آئی اور ایک رات گزاری اور اگلے دن اپنے میکے گئی جیسے انکے خاندان کا رواج ہے۔ پھر وہ واپس نہیں آئی اور مجھے یہ عذر کیا کہ بیماری وغیرہ ہے۔ جب دو تین دن گزر گئے اور میرے اپنے ملک واپس جانے میں صرف ایک دن رہا تو میرے پاس دلہن صاحبہ کے خاندان کے چار افراد آئے جن میں ایک اسکا والد تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ اور یہ کام کیا ہے اس لیے ہم اب راضی نہیں، خیر سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کچھ غلط فہمی ہے۔ لیکن وہ اپنا فیصلہ لے چکے تھے، انہوں نے پوچھا کہ ہم تو اب راضی نہیں اس معاملہ سے تو آپ کو کیا سمجھ آتی ہے کہ کیا ہونا چاہیئے، میں نے ان کو کہا کہ آپ بتائیں تو میں اس پر سوچ کر بتاتا ہوں۔ انہوں نے فورا کہا کہ آپ طلاق دیں اور سب ختم کردیں۔ میں تو حیران ہوا کہ اتنی آسانی سے یہاں تک پہنچ گئے۔ میں نے ان سے وقت مانگا کہ میں مشورہ کروں پھر ان کو بتاؤں تو انہوں کہا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے ہم بدلیں گے نہیں آپ اگر طلاق نہیں دیتے تو ہم عدالت سے لےلیں گے  ہمیں بس دقت ہوگی کاغذی کاموں میں کہ پھر آپ کو جاپان تک بھیجنا پڑیگا۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو پھر میں نے سوچا کہ اگر یہ عدالت وغیرہ سے لےلیں تو واپسی پھر مشکل ہوجائےگی۔ اسلئے شریعت میں جو سب سے ہلکا ہے وہ کر لوں تاکہ کم از کم جاتے جاتے دروازہ تو کھول کر جاؤں۔ اس پر میں نے ایک طلاق رجعی دی جو انہوں نے رکارڈ کر  لی  ، انہوں کہا کہ آپ تین کب دیں گے تاکہ یہ پکا ہوجائے ۔ عوام ہیں یہ مسائل انکو معلوم نہیں ہوتے۔ تو انکو میں نے سمجھایا کہ شریعت میں تین دینا کوئی طریقہ نہیں۔ انکو میں نے سمجھایا تو وہ سمجھ گئے اور چلےگئے۔ انہوں نے جاتے وقت یہ کہا کہ شام کو یہ چاچا آپ کے پاس آئیں گے کاغذات کےکام کے لئے آپ اس پر سائن کرنا ۔ کیونکہ ہم کو واپس شناختی کارڈ پاسپورٹ وغیرہ میں بدلنا ہوگا۔ شام کو چاچا صاحب آئے۔ انکو میں نے سمجھایا کہ قصہ یہ ہوا ہے وغیرہ تو وہ میری بات کو سمجھ گئے۔ اور بڑے حیران ہوئے کہ بات کہاں سے کہاں گئی ۔خیر پھر کاغذات نکالے اور  سائن کرنا تھا۔ تو میں نے دیکھا کہ اس میں تین طلاق کا لکھا تھا۔ کہ میں فلاں بن فلاں طلاق دیتا ہوں فلانہ بنت فلان کو۔ میں فلاں بن فلاں طلاق دیتا ہوں فلانہ بنت فلان کو۔ میں فلاں بن فلاں طلاق دیتا ہوں فلانہ بنت فلان کو ۔ اس پر میں نے وہ کاغذات سائن  کرنے سے انکار کیا۔  ان سے کہا کہ اس میں تو تین کا ذکر ہے میں نے تو صرف ایک دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان ہے یہاں کوئی اسلامی قانون تو ہے نہیں۔ کاغذات کام کے لئے ایسے رجسٹر کرنا ہوتا ہے۔وکیل نے ایسے کہا۔ میں نے کہا کہ یہ تو عجیب ہے ۔ ایک سے بھی رجسٹر ہوتا ہوگا آپ دوبارہ وکیل سے معلوم کریں۔ شریعت میں یہ صحیح طریقہ نہیں اور میں نے ان کو سمجھایا اور وہ سمجھ گئے۔ انہوں نے پھر وکیل کو فون کیا اور بات کی۔ فون رکھ کر کہا کہ وکیل یہی کہ رہے ہیں کہ ایسے رجسٹر ہوتا ہے۔ انکو گھر سے فون بھی آئے کہ اسے تین رکارڈ کرالانا تو انہوں نے کہا فون پر   نہیں ہوسکتا ۔ اور وجہ یہ تھی کہ وہ میری بات سمجھ گئے تھے کہ شریعت میں تین صحیح طریقہ نہیں۔ جب انہوں نے دوبارہ وکیل کو فون کیا اور معلوم کیا پھر مجھے بتایا تو کیونکہ وہ کوئی غلط آدمی نہیں ہیں بلکہ دیندار آدمی ہیں ہوشیار آدمی ہیں۔ ایسے ہیں کے عام طور سے ایسے آدمی کی گواہی لی جاسکتی ہے۔ جو وکیل تھے وہ کوئی ان کے وکیل نہیں جیسے عدالت میں دو طرف ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ ہے جو دو طرف  درمیان میں  ایک کانٹریکٹ بناتے ہیں۔ جیسے عام طور پر کوئی ایگریمنٹ  بنانا ہو تو ہم وکیل کے پاس جاکر اسے کانٹریکٹ بنوا کر سائن  کرتے ہیں۔ تو ایسے کرکے اخیر میں نے ان کو کہا کہ دیکھو میں یہ سائن  کر رہا ہوں آپ کے کاغذات کاموں کے لئے، میری طلاق تو ایک ہی ہے جو میں نے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ اچھا آپ کی طلاق ایک ہی ہے۔(مطلب میری بات کو دہراتے ہوئے کہا) اس کے بعد کچھ بات چیت ہوئی اور وہ عشا ءکے قریب چلےگئے۔ پھر گھر جاکر باقی جس جس کے نام تھے سائن کروایا۔ دو گواہ تھے ایک تو خود وہ چاچا تھے۔ دوسرے ایک اور چاچا تھے جو اس وقت موجود ہی نہیں تھے ہاں وہ صبح کو میری ایک طلاق رکارڈ کرنے والوں میں سے تھے۔ لیکن کیونکہ کاغذات کا کام تھا طلاق تو لے چکے تھے تو صرف اکیلے وہ ایک چاچا آئے۔ پھر میں نے دوسرے لوگوں کو بھی بتا دیا میسیج پر کہ دیکھے میری طلاق ایک ہی ہے۔ وہ چاچا جو میرے سائن  کرنے آئے تھے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ میں نے یہ کہا ہے اور میری یہ نیت تھی کہ یہ دستخط صرف کاغذات پورے کرنے کے لئے ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی نزاعی بات نہیں بلکہ ایک متفق بات ہے میرے اور فریق ثانی کے درمیان کہ میں نے صرف اس غرض سے دستخط کیےہیں  اور کیفیت اوپر بیان کرچکا کہ کیسے ان سے اور وکیل سے کئی ردوبدل ہوا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ صلح ہوگی یا نہیں باقی اس بات پر کوئی شک نہیں۔ اب ایسے کرکے مجھے تو معلوم ہے کہ میرے اور اللہ کے درمیان میں نے صرف ایک دی ہے اور ان لوگوں کو بھی معلوم ہے۔ لیکن دین تو میری سمجھ سے تو نہیں ہے اس لئے میں نے پھر پوچھ لیا۔ جب میں واپس آیا تو میں نے چند لوگوں سے مشورہ کیا جس میں میرے شیخ بھی ہیں جو خود بڑے عالم ہیں۔ انکو پورا قصہ میں نے بتایا تو انہوں نے کہا کہ میری نظر میں ایک ہی ہوا ہے لیکن کیونکہ ان کے پاس ایک چیز لکھائی میں ہے تو اسلئے آپ کسی دار الافتا سے پوری صورت حال بیان کرکے یہ لکھوالیں کہ ایک ہی ہوئی ہے نہ کہ تین۔ ایسے کرکے آپ کی طرف رجوع کیا ہے۔ پھر قصہ لمبا ہے لیکن مسئلہ سے متعلق یہاں تک ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اب تین ہیں یا اس صورت میں بھی ایک ہے کیونکہ یہ کاغذات ایک مجبوری تھی۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی تھی تو اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی سائل کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی  رہے ، اس کے بعد جو تین طلاق کا طلاق نامہ لے کر لڑکی والے دستخط کروانے آئے اور سائل کے بیان کے مطابق باربار ان کو طلاق کا شرعی مسئلہ (کہ بیک وقت تین طلاق جائز نہیں)سمجھانے کے باوجود قانونی تقاضے کا عذر کرکے تین طلاق کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا اصرار کرتے رہیں جس پر سائل نے یہ واضح کر دیا کہ دیکھیں میں آپ کے کہنے پر قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے اس پر سائن کر رہا ہوں باقی میری طلاق ایک ہی ہے ، تو اگر واقعی یہی صورتحال تھی اور   سائل نے طلاق کے عدالتی کاغذات پر دستخط کرنے سے قبل کم از کم دو افراد کو گواہ بنالیا تھا  کہ کاغذات پر دستخط کرنے کا مقصد نئی طلاق دینا نہیں ہے،  بلکہ محض   قانونی   ضرورت کے لیے  ایسا کررہاہے، اور  اس سے حقیقت میں بھی سائل  کا طلاق دینا مقصود نہیں تھاا ور دونوں گواہان اس کی تصدیق کریں  تو اس سےمزید کوئی  طلاق واقع نہیں ہوگی عدت کے دوران قولا و فعلا رجوع کرنے کی گنجائش ہے اور آئندہ کے لیے دو طلاق کا مالک ہوگا اور اگر دوران عدت رجوع نہ کرے تو عدت کی مدت پوری ہوتے ہی ایک طلاق سے نکاح ٹوٹ جائے گا عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوہوگی لیکن  اگر طلاق نامہ بنانے سے قبل دو گواہ نہیں بنائےتو سائل كي بيوي پرقضاء  تين  طلاقيں  واقع ہوگئیں نکاح ختم ہوگیا رجوع یا تجدید نکاح کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله أو هازلا) أي فيقع قضاء وديانة كما يذكره الشارح، وبه صرح في الخلاصة معللا بأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وكذا في البزازية. وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا فقال في البحر، وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية والقنية لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا. اهـ. ويمكن حمل ما في الخانية على ما إذا أشهد أنه يقر بالطلاق هازلا ثم لا يخفى أن ما مر عن الخلاصة إنما هو فيما لو أنشأ الطلاق هازلا. وما في الخانية فيما لو أقر به هازلا فلا منافاة بينهما."

(کتاب الطلاق ، مطلب فی المسائل التي تصح مع الاکراہ جلد ۳ ص : ۲۳۸ ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا.

"(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(کتاب الطلاق ، مطلب فی الطلاق بالکتابة جلد ۳ ص : ۲۴۶ ط : دارالفکر)

فتاوي محموديه ميں هے:

"سوال :ميرے ايك عزيز حاجي نياز احمد كے پاس ضلع بستي ميں كافي زمين هے ، ان كي بيوي زينب كو ضلع گونڈه ميں سوا سو بيگه ان كے والد مرحوم نے ديا تھا ، گورنمنٹ نے دونوں زمینوں کو یکجا کر دیا ہے ، شیلنگ کا مقدمہ شروع ہے ، زمین زیادہ نکل رہی تھی ۔ وکلاء نے ان کو رائے دی کہ آپ تحریر پیش کردیں کہ میں زینب کو طلاق دے دیا ہے، ان کی جانب سے وکیل نے ایک تحریرلکھی ہے او رحاجی نیاز احمد سے دستخط لیا نہ  انہوں نے زبان سے طلاق دیا ، نہ طلاق دینے کی نیت تھی ۔ ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

الجواب:ایسی جھوٹی تحریر یا خبر سے دیانۃ طلاق نہیں ہوئی ۔ اگر گواہ بنالیا تھا کہ میں جھوٹی تحریر پر دستخط کرتا ہوں ، نہ میں نے طلاق دی نہ دے رہا ہوں ، تو قضاء بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔"

(باب الطلاق بالکتابۃ جلد ۱۲ ص:۶۴۶ ، ۶۴۷ ط: دار الافتاءجامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311101249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں