بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق رجعی سے رجوع کے بعد بیوی کا ساتھ رہنے سے انکار کرنے کا حکم


سوال

میرے نکاح کو 34 سال ہوگئے ہیں ، 32 سال تو ہم نے پرسکون زندگی گزاری ، لیکن آخری 2 سالوں میں میری بیوی بگڑ گئی کہ اپنا گھر چھوڑ کر اپنا گھر چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں چلی جاتی تھی ، کبھی ہفتہ ، کبھی مہینہ اور کبھی دو تین مہنیہ رشتہ داروں کے ہاں چلی جاتی تھی ، گھر کا بچوں کا کوئی خیال نہیں تھا ، اس لیے ایک دن میں نے غصے میں اس کو طلاق دی کہ " اگر تم رہنا نہیں چاہتی تو تمہیں طلاق "اتنے میں میرے بیٹے نے میرا منہ پکڑ لیا، پھر اس کے بعد میں نے رجوع کر لیا ، رجوع زبانی کیا ہے کہ دیکھو ہم دوبارہ ساتھ رہ لیں ، بچے ہیں ، اپنا بھی خیال رکھ ، اور میرا بھی خیال رکھ اور جیسے پہلے ساتھ رہتے تھے ، اب دوبارہ ساتھ رہیں ، اپنی زندگی خراب نہ کر ، اور آجا ، لیکن وہ کہہ رہی ہے کہ میں تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ، میں نے کئی بار سمجھایا کہ آجا ، آجا،دوبارہ ساتھ رہیں گے ۔

1-  آج میری بیوی نے بچے کو میسج کیا تھا، کہ ابو سے کہو  کہ میرے زیورات مجھے واپس کریں  ؛ اور گھر میں میرا حصہ دے دیں ،حالانکہ ان کے زیورات ان کی اجازت سے فروخت ہوئے تھے ، میرا گردہ خراب ہوا تھا تو علاج میں اس کی رقم استعمال ہوئی تھی ، اس بات کو 20 سال ہوچکے ہیں اس وقت سے اب تک اس کا مطالبہ نہیں تھا، اور تقریباً طلاق دینے سے  2 سال پہلے میں نے اس کو بھتیجے اور اس کی بھائی کی شادی میں  75 ہزار کا زیور دلوایا تھا ، اس کا کیا بنے گا ؟

 2-  میرے رجوع کے بعد کیا نکاح برقرار ہے یا ختم ہوچکا ہے ؟ طلاق دیے ہوئے تین مہینے ایک دن ہوچکے ، اور ان کو ماہواری نہیں آتی ہے ، برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں واضح فرمادیں۔

وضاحت : گھر شوہر کا ذاتی ہے اس میں بیوی کسی قسم کی شراکت دار نہیں ہے ، نیز شوہر کے علاج پر  بیوی نے زیورات بیچ کر جو رقم لگائی تھی وہ بطور احسان تھی ، اس کی  واپسی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

جواب

1-صورت مسئولہ میں شوہر  بیوی کو ایک طلاق رجعی دینے کے بعد    جو الفاظ رجوع کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں،ان میں بیوی کولوٹ آنے اور دوبارہ ساتھ رہنے کی ترغیب دی ہے،لہذا شوہر کے مستعمل کردہ الفاظ سے رجوع نہیں ہوا،اور بیوی کی عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا،بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،اور اگر نباہ کی کوئی صورت بنے اور دونوں ساتھ رہنا چاہیں، تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

2- بیوی نے شوہر کو اس کی بیماری کے وقت اس کے مطالبہ کے بغیرعلاج کی غرض سےزیورات دیے تھے،اور دیتے وقت واپسی کا کوئی معاہدہ اور تذکرہ نہیں ہوا تھا،تو یہ مذکورہ خاتون کا اپنے شوہر پرتبرع اور احسان تھا،اور اب علیحدگی کے بعد ان زیورات کا مطالبہ شرعاً درست نہیں ، اسی طرح جو اخراجات سائل نے اپنی بیوی پر کیے،زیورات تحفۃً دلوائے، وہ سب بیوی کی ملکیت شمار ہوں گے،اب سائل کا ان اخراجات کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة."

(  كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1 ، ص:468/469 ، ط:دارالفكر )

وفيه ايضاّ :

" وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(  كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1 ، ص:470 ، ط:دارالفكر )

وفيه ايضاّ :

"‌وتنقطع ‌الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة ."

(  كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1 ، ص:471 ، ط:دارالفكر )

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے :

"المتبرع لا يرجع بما ‌تبرع ‌به ‌على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

( العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ ،کتاب المداینات ،ج:2 ، ص:226 ،ط: دارالمعرفۃ )

السنن الكبرى میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه۔"

(باب من غصب لوحا فادخلہ فی سفینۃ او بنی علیہ جدار ، رقم الحدیث : 11545 ، ج: 6 ، ص:166 ، ط: دارالکتب العلمیۃ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں