بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تکبیر سے ایک سے زائد جانور کو ذبح کرنا اور مشینی ذبح کرنے کا حکم


سوال

اگر تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قصائی محض پہلے جانور پہ ہی تکبیر پڑھتا ہے اور بقیہ کو پہلے تکبیر سے ہی چھری پھیرتا ہے تو کیا یہ قربانی جائز ہوگی ؟اور اسی حالت میں مشینی قربانی کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ہر جانور مستقل طور پر ایک ذبیحہ ہوتاہے،اور ہر جانور کے لیے قصائی کو علیحدہ تکبیر کہنی  ضروری ہوتی ہے، اگر تعداد کی کثرت کی وجہ سے ایک ہی تکبیر کہہ کر  ایک سے زائد جانوروں کو ذبح کیاجائے تو جس جانور پر تکبیر کہی گئی ہے،اس کی قربانی جائزہوگی،اور جن جانوروں پر قصداً تکبیر نہیں کہی تو ان کی قربانی نہیں ہوئی ،اور ان جانوروں کا گوشت بھی حلال نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں جب قصائی نے ایک ہی جانور پر تکبیر کہی ،اور دیگر جانوروں پر قصداً تکبیر نہیں کہی تو اس صورت میں جس جانور پر تکبیر کہی گئی تھی،اس کی تو قربانی صحیح ہوئی ،اور باقی جانور کی قربانی نہیں ہوئی ،اور ان کا گوشت بھی حلال نہیں ہوگا۔

جہاں تک مشینی ذبیحہ کی بات ہےتو جانور کو ذبح  کرنے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ ذبح کرنے والاعاقل ، بالغ ہو، اور مسلمان یا  اہلِ کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو (بشرط یہ ہے کہ وہ  اپنے مذہب کے اصول، پیغمبر اور کتبِ سماویہ کو مانتاہو،  دھری نہ ہو) اور وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، اور ذبحِ اختیاری میں یہ بھی ضروری ہے کہ گلے کی چاروں رگیں (کھانے کی نالی، سانس کی نالی اور خون کی نالیوں) یا ان میں سے اکثر کٹ جائیں، اور  ذبح کرنے والا خود جانور کو  تیز دھار آلہ سے ذبح کرے، (اگر آلہ کی تیزی کے بجائے اس کے دباؤ سے  دم گھٹنے کی وجہ سے جانور مرجائے تو وہ مردار ہوگا)۔

مروجہ مشینی ذبیحہ میں یہ سب شرائط نہیں پائی جاتیں، لہذا مشین کے ذریعہ ذبح کرنا خلافِ شرع ہے، اور مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے۔

ہاں اگر مشین کا کام صرف اس حد تک ہو کہ وہ جانور کو قابو کرلے، اور اس کے عمل سے جانور کی موت واقع نہ ہو، اور  مشین جانور کو  گزارتی جائے اور مشین کے  چھری پھیرنے کے بجائے  وہاں مسلمان یا متدین اہلِ کتاب کھڑے ہوجائیں اور وہ  اپنے سامنے گزرتے ہوئے جانوروں کو باری باری ہر ایک پر تسمیہ پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے تیز دھار آلے کی مدد سے ذبح کریں تو اس صورت میں ذبیحہ حلال ہوگا۔

حدیث پاک میں ہے:

"عن أنس رضی اللہ عنہ : قال: "ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما".

(كتاب الأضاحي،باب استحباب الضحية،و ذبحهامباشرة بلاتوكيل،والتسمية و التكبير،ج: 3، ص: 1557،ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘  پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔

حدیث پاک میں ہے:

"عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به."

(كتاب الأضاحي،باب استحباب الضحية،و ذبحهامباشرة بلاتوكيل،والتسمية و التكبير،ج: 3، ص: 1557،ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر و ، تو میں نے تیز کرکے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’بسم اللہ‘‘، اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

"‌أما ‌الاختيارية ‌فركنها ‌الذبح فيما يذبح من الشاة والبقر، والنحر فيما ينحر وهو الإبل عند القدرة على الذبح والنحر، ولا يحل بدون الذبح أوالنحر، والذبح هو فري الأوداج ومحله ما بين اللبة واللحيين، والنحر فري الأوداج ومحله آخر الحلق، ولو نحر ما يذبح أو ذبح ما ينحر يحل لوجود فري الأوداج لكنه يكره لأن السنة في الإبل النحر وفي غيرها الذبح، كذا في البدائع.....والعروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات."

(كتا ب الذبائح ،الباب الأول في ركن الذبح ،وشرائطه،و حكمه و أنواعه،ج: 5،ص: 285 +287،ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں