بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کو فروخت کرنا


سوال

زید اور عمرو نے مل کر 90لاکھ روپے میں گاڑی خریدی ،جس میں سے 80 لاکھ زید نے دیے ،اور دس لاکھ عمر ونے  ادا کیے،لیکن عمر مذکورہ گاڑی میں زید کے ساتھ نصف میں شریک ہونا چاہتاہے ،اب عمر وکے پاس مزید رقم نہیں ہے تو انہوں نے مارکیٹ میں گاڑی کے ریٹ معلوم  کیے،ایک کروڑ دس لاکھ روپے تھے ۔ انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ موجودہ ریٹ کے مطابق 55لاکھ روپے زید نے ادا  کیے بقیہ 55لاکھ روپے عمر و کو ادا کرنے ہیں، ان میں سے دس لاکھ عمر  ونے ادا  کیے ہیں ،باقی 45لاکھ کی ادائیگی اس طور پر ہوگی ماہانہ عمرو ، زید کو قسط  دے گا، لیکن وہ متعین نہیں ہے ایک لاکھ بھی ادا کرسکتاہے 50 ہزار بھی  ادا کرسکتا ہے ۔چوں کہ گاڑی کے نفع اور نقصان میں دونوں برابر کے شریک  ہوں گے،عمرو کہتا ہے کہ  ماہانہ گاڑی سے جتنا نفع  حاصل ہوجائے تو اس کو بھی ماہانہ قسطوں میں سے منہا کرنا ہے ۔ مثلًا ایک لاکھ منافع حاصل ہو ا س  منافع میں 50ہزار روپے نفع تو عمرو کا ہے اب عمرو کہتا ہے :  ماہانہ قسط میں سے 50 ہزار روپے منہا کرناجو مجھے نفع میں حاصل ہوا ہے ۔

1.پوچھنا یہ ہے کہ عمرو کے لیے یا زید کےلیے گاڑی کے منافع میں سے قسط اداکرنا یا لینا جائز ہے کہ نہیں ؟

2. زید  نے جس سے خریدی ہے مثلا (خالد ) سےکبھی بائع کی وجہ  سے مذکورہ گاڑی کو روک دیا جاتاہے ، مثلا کسی پیٹرول پمپ والوں کا مذکورہ گاڑی کی وجہ سے بائع پر قرضہ تھا یا کوئی اور وجہ ہو جس کی وجہ سے  مذکورہ گاڑی کو روکا جاتا ہے اور اس روکنے کی وجہ بائع ہی ہوتا ہے ، اب مشتری نے تو  چوں کہ پورا ثمن ادا  کیا ہے،  لیکن بائع کی وجہ سے اس  کی گاڑی  روک دی گئی جس کی وجہ سے مشتری کی روزانہ آمدنی بند ہوگئی ۔اب ان کے ہاں عرف یہ ہے کہ جتنے دن گاڑی کو روک دیاجائے گا اس کا تاوان بائع پر لازم ہوگا،  مثلًا مذکورہ گاڑی کی آمدنی دن میں دس ہزار ہے ،اب جب گاڑی کو دس دن روک دیا گیا تو بائع (خالد)  مشتری (عمرو اور زید ) کو ایک لاکھ روپے دے گا ۔

کیا مشتری ـ(زیداور عمرو ) کے لیے  بائع (خالد) سے مذکورہ صورت میں ایک روپے لینا جائز ہے ؟ 

جواب

1.صورت ِ مسئولہ میں  ایک شریک (زید )کا دوسرے شریک (عمرو )کواپنا حصہ   مارکیٹ ریٹ کے حساب سےقسطوں پر فروخت کرنا  اور اس (فروخت شدہ حصہ) کی قیمت قسطوں کے ذریعے وصول کرنا (زید)  کےلیے اور (عمرو)کا  اس رقم كو بطور قسط منافع میں سے   ادا کرنا  درست ہے ، البتہ  قسط ادا کرنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ ماہانہ قسط متعین کرلی  جائے؛   تاکہ جھگڑے کی نوبت نہ آئے ۔ 

واضح رہے کہ شریکین کے اختیار میں  ہے کہ منافع کی تقسیم  میں باہم رضامندی سے کوئی بھی فیصد مقررکر لیں ،البتہ نقصان میں برابری کی شرط لگانا در ست نہیں ہے نقصان رأس المال (سرمایہ )كے بقدر هوگا ۔

درر الحکام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة 245) البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح يصح البيع بتأجيل الثمن وتقسيطه ۔"

(الكتاب الأول في البيوع،الباب الثالث: في بيان المسائل المتعلقة بالثمن،الفصل الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالنسيئة والتأجيل،1/ 228-227، ط:دار الجیل)

المبسوط للسرخسي ميں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم؛ ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، 7/13 دار المعرفة  بيروت) 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحكام  میں ہے:

"(‌المادة :1088) لأحد ‌الشريكين ‌إن ‌شاء بيع حصته إلى شريكه إن شاء باعها لآخر بدون إذن شريكه۔" 

(الكتاب العاشر في انواع الشركات 1/483،ط:رشيديه)

المبسوط للسرخسي ميں ہے:

"الشركة ‌نوعان: شركة الملك وشركة العقد. (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه۔"

(کتاب الشرکۃ،ج:11،ص :151،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

2.مشتری (زید اور عمرو) کے لیے   مذکورہ صورت میں بائع (خالد)سےگاڑی روکنے کی وجہ سے ہونے والے ممکنہ نقصان کا  تاوان  کی مد میں رقم لینا درست نہیں ہے ، البتہ انہیں یہ حق ہے کہ عیب (بائع کے قرض)کی وجہ سے گاڑی کو لوٹا دیں، بشرطیکہ مشتری   گاڑی خرید تے وقت اس عیب سے لاعلم ہو ،اگر علم کے باوجود گاڑی خریدی گئی تو یہ  مشتری کی رضامندی شمار کی  جائے گی اور گاڑی کو لوٹانے کاحق بھی حاصل نہ ہوگا ۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا اشترى شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده كذا في شرح الطحاوي۔"

(کتاب البیوع ،باب فی خیار العیب،ج:3،ص:66،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں