بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شخص کی زمین اور دوسری کی تعمیرکی صورت میں زمین کرایہ پر دینے کاحکم


سوال

1:ایک شخص نے دوسرے کی زمین میں میڈیکل اسٹور بنایاہے، جس کا کل خرچہ چھ لاکھ روپے ہواہے، دونوں کے درمیان چھ سال تک یہ  معاہدہ ہوا ہےکہ میڈیکل اسٹور والا یہاں رہے گا اور اس دوران وہ ہر ماہ مالک زمین کو کرایہ بھی دےگا،چھ سال کے بعد جب میڈیکل اسٹور والا یہاں سے جاناچاہے گا تو تعمیر(میڈیکل اسٹور) چھوڑ کر اس تعمیر کا خرچہ (چھ لاکھ) مالک سے لے گا تواب دریافت طلب أمر یہ ہے کہ شرعاً ایسا معاملہ کرنا کیسا ہے؟ 

2:نیزچھ سال کے دوران ان کے اس چھ لاکھ روپے پر جو اس نے تعمیر میڈیکل اسٹور ميں لگایا ہے زکوٰۃ ہے یانہیں؟  

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں ایک شخص کی زمین پر دوسرے نے مالکِ زمین کی اجازت سے تعمیرکی ،توشرعاًمالکِ زمین موجراور اور تعمیرکرنے والامستاجرہے، لہذا موجر(مالکِ زمین )کےلیے مستاجر(کرایہ پر رہنے والے)سے اپنی زمین کا اجرت لینا درست ہے، البتہ کرایہ دارنے مالکِ زمین کی اجازت سے مذکورہ زمین پر جوتعمیرکی ہے، تو شرعاًاس  تعمیر کا وہی مالک ہے، لہذا مدت مقررختم ہونے کے بعدتعمیرکرنے والے کو اپنے تعمیرہٹانے کاحق حاصل ہوگا، البتہ اگر مدتِ اجارہ ختم ہونے کے بعد وہ  مالکِ زمین  کی باہمی رضامندی سےمذکورہ تعمیرکاعوض مقرر کرکے مالکِ زمین کے حق میں دستبردارہوناچاہے تو شرعاًاس کی بھی اجازت ہے، تاہم پہلے سے اجارہ کو مشروط کرنا اور مالکِ زمین کوتعمیرلینے کا پابندبنانادرست نہیں ہے۔

2:مذکورہ دکان( میڈیکل اسٹور)کی تعمیرپر لگائی گئی رقم میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے،البتہ اس دکان میں موجود فروخت کے قابل سامان پر(اپنے بنیادی نصاب کے)پوراسال گزرنے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔

تنقيح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

''(سئل) فيما إذا كان لهند وبنتها دار مشتركة بينهما فعمر زوج هند في الدار بيوتا بدون إذن منهما ولا وجه شرعي، ورفع العمارة لا يضر بالدار فهل تكون العمارة للمعمر ويؤمر بالتفريغ بطلبهما؟(الجواب) : نعم، ذكر في كتاب الحيطان من العدة: كل من بنى في دار غيره بأمره يكون البناء للآمر، وإن بنى بغير أمره يكون له وله أن يرفعه إلا أن يضر بالبناء فحينئذ يمنع يعني إذا بنى لنفسه بدون أمر، أما إذا بنى لرب الأرض بدون الأمر ينبغي أن يكون متطوعا عمادية من أحكام العمارة في ملك الغير.''

(‌‌كتاب الحيطان وما يحدث الرجل في الطريق وما يتضرر به الجيران ونحو ذلك،ج:2،ص:274،ط:دارالمعرفۃ)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

''وأما صفقتان في ‌صفقة أن يقول: أبيعك هذا العبد بألف على أن تبيعني هذا الفرس بألف وقيل هو أن يبيع ثوبا بشرط الخياطة، أو حنطة بشرط الحمل إلى منزله فقد جعل المشتري الثمن بدلا للعين والعمل فما حاذى العين يكون بيعا وما حاذى العمل يكون إجارة فقد جمع صفقتين في ‌صفقة.''

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:1،ص:203،ط:المطبعۃالخیریۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

''(ولا في ثياب البدن) المحتاج إليها لدفع الحر والبرد ابن ملك (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) ۔۔۔(قوله وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام ولو تقديرا، وقوله ونحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات.''

(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:264/ 265،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں