بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیویوں کے درمیان برابری


سوال

 1.زید نے دوسری شادی کی ہے، دونوں بیویوں کے حقوق مفصل بیان کریں،نیز نئی شادی پر دوسری بیوی کو کچھ تحائف ہدایاجات وغیرہ دینے پر مواخذہ تو نہیں؟

2.اگردوسری بیوی سے قلبی میلان زیادہ ہو تو مواخذہ ہوگا یا معاف ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے،  اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء ،تحفہ تحائف  وغیرہ دے  اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے البتہ شادی کے موقع پر نئی  دلہن کو دیے جانے  والے تحائف  اس سے مستثنی ہے،لہذا جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي".

(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، 2/  280، ط: قديمي)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل،3/ 1458،ط: دارإحياء التراث العربى)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ...الخ."

( كتاب الطلاق ،الباب السابع عشر في النفقات، 1/ 544، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع".

(كتاب الطلاق ، الفصل الأول فى نفقة الزوجة ، 1/ 555، ط:رشيدية)

و فيه أيضاً:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها...الخ." 

( كتاب الطلاق ، الفصل الثاني في السكني 1/  556،ط: رشيدية)

سنن أبي داود  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(باب في القسم بين النساء،ج 3 ،ص 469،ط:دار الرسالة العالمیة)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

2.صورت مسئولہ میں اگر کسی ایک بیوی کی جانب قلبی میلان زیادہ ہوتو یہ قابل مؤاخذہ نہیں ، البتہ دیگر امور  نان نفقہ اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور. (قوله وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع."

(کتاب النکاح ،باب القسم بین الزوجات،ج3،ص202،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144312100539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں