بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک صف کے مقتدیوں کے درمیان فاصلہ


سوال

کہا جاتا ہے کہ نماز کی صف ایسے بناؤ تاکہ بلی نہ گزر سکے تو دو پاؤں کے بیچ میں اتنی  جگہ ہوتی ہے کہ وہاں سے گزر سکتی ہے تو بلی وہاں سے کیوں نہیں گزرتی ؟

جواب

واضح رہے کہ  احادیث میں اتصال صفوف کی تاکید آئی ہے کہ  کندھوں کو کندھوں سے اور ٹخنوں کو ٹخنوں سے اور گھٹنوں کو گھٹنوں سے ملایا جائے لیکن اس سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے،حقیقی  معنی مراد نہیں ہے۔باقی  نماز کے دوران ایک نمازی کے دونوں پاؤں کےدرمیان چار انگلیوں کے بقدر فاصلہ کرنا مستحب ہے،اورصفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کینماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں ،کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں،ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں ،صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔نیز  احادیث میں  بلی کا ذکر نہیں ملا حدیث شریف میں حذف کا لفظ استعمال ہوا اور حذف کہتے ہیں کالی چھوٹی  بھیڑ کو ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن رسول الله- صلى الله عليه وسلم -قال: "رصوا صفوفكم، وقاربوا بينها، وحاذوا بالأعناق فوالذي نفسي بيده إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف."

(کتاب الصلوۃ ، باب تسویة الصفوف جلد ۲ ص: ۹ ط: دار الرسالة العلمیة)

بذل المجہود میں ہے:

"وفي "القاموس": والحذف محركة: غنم سود صغار حجازية أو جرشية بلا أذناب ولا آذان."

(کتاب الصلوۃ ، باب تسویة الصفوف جلد ۳ ص: ۶۱۵ ط: مرکز الشیخ ابي الحسن الندوي للبحوث و الدراسات الاسلامیة ،الهند)

فیض الباری میں ہے:

"قال الحافظ: المراد بذلك المبالغة في تعديل الصفِّ وسدِّ خلله. قلتُ: وهو مراده عند الفقهاء الأربعة، أي أن لا يَتْرُكَ في البين فرجةً تَسَعُ فيها ثالثًا."

(باب الزاق المنکب بالمنکب و القدم بالقدم فی الصف جلد ۲ ص: ۳۰۲ ط: دارالکتب العلمیة)

در المختار میں ہے :

"وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا."

(کتاب الصلوۃ ، باب الامامة جلد ۱ ص: ۵۶۸ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں