بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جُمادى الأولى 1446ھ 13 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک پلاٹ اور کاروباری رقم ہے، زکاۃ کا حکم


سوال

میں نے ایک پلاٹ سیل کیا ہے تقریباً ایک ماہ پہلے، اس کی آدھی قیمت سے میں نے ایک اور پلاٹ خرید لیا ہے، اور آدھی قیمت میں نے کاروبار کےلیے رکھی ہوئی ہے، کیااس پر زکاۃ بنتی ہے؟

جواب

پلاٹ بیچ کر اس کی آدھی قیمت سے آپ نے جو پلاٹ خریدا، اگر اس (دوسرے) پلاٹ کو خریدتے وقت اسے بیچنے کی نیت سے خریدا ہے تو  اس کی قیمتِ فروخت پر زکاۃ لازم ہوگی اور اگر آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا تو اس پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔ کاروبار کے لیے رکھی ہوئی رقم پر زکاۃ لازم ہے۔

نوٹ : زکاۃ کا یہ حکم، زکاۃ کا سال پورا ہونے پر اور مذکورہ اشیاء کی قیمت دیگر اموال (نقدی، سونا چاندی، مالِ تجارت) کے ساتھ ملا کر نصاب سے زائد ہونے کی صورت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 274):
"ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئًا للقنية ناويًا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں