بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک عورت کا چھپ کر دوسری عورت کو برہنہ حالت میں دیکھنا


سوال

ایک عورت کا دوسری عورت سے پورے جسم کا کتنا پردہ ہے ؟ معاملہ کچھ یوں ہے کہ نند اور بھابھی کے اچھے تعلقات تھے،کوئی لڑائی جھگڑا کچھ بھی نہیں تھا، اچانک سے ایسا مسئلہ پیش آجاتا ہے کہ جب بھابھی غسل کے لیے جاتی ہے تو(غسل خانے سے پہلے ڈریسنگ روم ہےجس میں الماری اور سامان وغیرہ موجود ہے ) نند وہاں نجانے کس مقصد کے لیے چھپ کے بیٹھتی ہے اور بھابھی کو نہیں معلوم ہوتا پھر اچانک سے چادر وغیرہ ہلتی ہوئی دکھتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی موجود ہے دیکھنے پہ معلوم ہوتا ہے کہ نند موجود ہے۔جب یہی معاملہ گھر والوں کے سامنے رکھا جائے تو وہاں موجود مولوی بھی یہی کہتے ہیں کہ دونوں عورتیں موجود تھیں تو اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر برہنہ حالت میں دیکھا بھی ہے تو دیکھنی والی ایک عورت ہی تھی اس سے کچھ نہیں ہوتا، اگر اس نے دیکھ لیا ہے اور بھابھی (جس کے ساتھ ایسی حرکت کی گئی ہے) کو اس بات پہ غلط کہا جا رہا ہے کہ آیا اتنی بڑی غلطی تو نہیں ہے جس کو ایشو بنا لیا جائے، ان باتوں کی وجہ سے مسائل سلجھانے کی بجائے مزید بگڑ رہے ہیں کہ ایک غلط بات کو صحیح کہا جا رہا ہے۔

آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں بتائیے کہ ایک عورت دوسری عورت کو بغیر ضرورت کے اور یوں پلاننگ کے تحت برہنہ حالت میں دیکھ سکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً بیان کردہ واقعہ درست ہے کہ نند  نے بھابھی کوچھپ کر برہنہ حالت میں قصداًدیکھاہے، تو شرعاًیہ قبیح فعل ہے،کیوں کہ ایک مسلمان عورت کے لیے دوسری عورت(چاہے مسلمان ہو یا نہ ہو) کے ناف اور گھٹنے  کے درمیانی حصہ کو بلاضرورت شدیدہ دیکھنا ناصرف حرام ہےبلکہ حدیث شریف کی رُو سے یہ کام کرنے والالعنت کا مستحق بھی ہے، اور حالتِ برہنگی میں ستر کا مذکورہ حصہ کُھلاہونا یقینی ہے،لہذا نند کو چاہیے کہ وہ بھابھی سے اِس فعل پر معافی مانگے اور اللہ کے حضور توبہ واستغفار بھی کرے، باقی   ایک مسلمان عو رت  کے لیے دوسری مسلمان عورت کے ناف اور  گھٹنے کے درمیانی حصہ کے علاوہ بقیہ بدن ستر میں تو شامل نہیں ہے، البتہ  بلاضرورت اِس حصہ کو بھی دیکھنا درست نہیں ہے، اور یوں چھپ کر دیکھنے سے قباحت اور بڑھ جاتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل ولا المرأة إلى عورة المرأة"

(کتاب النکاح،‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات،931/2 ط:المکتب الاسلامی،بیروت)

"ترجمہ: حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے، کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے ۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن الحسن) أي البصري (مرسلا قال: بلغني) أي عن الصحابة (أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: لعن الله ‌الناظر) أي بالقصد والاختيار (والمنظور إليه) أي من غير عذر واضطرار وحذف المفعول ليعم جميع ما لا يجوز النظر إليه تفخيما لشأنه."

(کتاب النکاح،‌‌باب النظر، 5/2059، ط:دارالفكر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"الأصل أن ‌النظر ‌إلى ‌العورة حرام."

(کتاب الخنثی،105/30 ط:دارالمعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نظر المرأة إلى المرأة كنظر الرجل إلى الرجل، كذا في الذخيرة. وهو الأصح، هكذا في الكافي. ولا يجوز للمرأة أن تنظر إلى بطن امرأة عن شهوة، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له، ج:5، ص:327، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں