بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد کے برابر میں بلاضرورت دوسری مسجد بنانے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں ایک مسجد تقریباًپچاس سال پہلے ایک معزز شخص کی سرپرستی میں تعمیر کی گئی تھی ، الحمد للہ علاقہ کے لوگوں کی جانب سے بغیر کسی اختلاف کے  باقاعدہ نماز کی ادائیگی ہوتی رہی ، لیکن گزشتہ تقریباً تین سال  علاقہ کی ایک دوسری شخصیت نے اپنے مالی زعم اور رعب کی وجہ سے سابقہ مسجد کی انتظامیہ سے مشورہ کیےبغیر اپنی سرپرستی میں سابقہ مسجد کے بلکل ساتھ ہی دوسری مسجد کے واسطے ایک نئی عمارت کی تعمیر کردی،اور سابقہ مسجد کی موجودگی کے باوجود اس کے برابر و متصل میں نئی مسجد میں نمازوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ، باہمی انتشار سے بچ بچاؤ کے واسطے  دو مرتبہ علاقہ کے مقامی علماء و مفتیانِ کرام کی مداخلت و مشاورت کے ذریعہ افہام و تفہیم کی راہ اختیار کی گئی ،اس دوران سابقہ مسجد کی انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہوئی، لیکن شاید طاقت اور پیسہ کے زعم میں اب دوبارہ مسائل شروع ہورہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مقامی لوگ پرانی مسجد یا نئی مسجد دونوں میں سے کون سی مسجد میں نماز ادا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ جو جگہ ایک دفعہ مسجد بنادی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے۔اس لیے اب دونوں مساجد کا ادب و احترام کرنا اور انہیں آباد رکھنا اہل علاقہ پرلازم ہے، لہذامقامی حضرات کو چاہیے پنج وقتہ نمازیں دونوں مساجد میں اداکریں، اور جمعہ کی نماز کے لیے مناسب یہ ہے کہ حسبِ سابق پہلی مسجد میں ہی ادا کی جائے ؛کیونکہ جمعہ وعیدین کے قیام کے مقاصد میں شان وشوکت کا اظہار بھی ہے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے اہلِ علاقہ کی کثیر تعداد ایک جگہ بیک وقت جمعہ کی نماز ادا کرے ،لیکن اگر مصالحت کی کوئی صورت نہ بن پائے،تو نمازی حضرات فتنہ و فساد سے احتراز کی خاطر دونوں مسجدوں میں جمعہ کی نماز ادا کریں ۔ 

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"جمعہ کا ایک اہم مقصد اظہارِ شوکت ہے،جوبڑی جمعیت کے ساتھ ایک جگہ ادا کرنے سے زیادہ واضح طور پرحاصل ہوتا ہے،بلاضرورت جگہ جگہ جمعہ کرنے سے یہ مقصد زیادہ حاصل نہیں ہوتا،اس لیے یہ طریقہ ناپسند ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وقال البغوي: قال عطاء: لما فتح الله تعالى على عمر رضي الله عنه الأمصار، أمر المسلمين ببناء المساجد، وأمرهم أن لا يبنوا مسجدين يضار أحدهما الآخر، ومن المضارة فعل تفريق الجماعة إذا كان هناك مسجد يسعهم، فإن ضاق سن توسعته أو اتخاذ مسجد يسعهم."

(كتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، ج:2، ص:604، ط:دارالفكر)

روح المعانی میں ہے:

قال الله تعالي: " لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ..."( سوره التوبة، آية:108)

وفي تفسيره:"ويستفاد من الآية أيضا على ما قيل ‌النهي ‌عن ‌الصلاة ‌في ‌مساجد ‌بنيت مباهاة أو رياء أو سمعة أو لغرض سوى ابتغاء وجه الله تعالى، وألحق بذلك كل مسجد بني بمال غير طيب.وروي عن شقيق ما يؤيد ذلك. وروي عن عطاء لما فتح الله الأمصار على عمر رضي الله تعالى عنه أمر المسلمين أن يبنوا المساجد وأن لا يتخذوا في مدينة مسجدين يضار أحدهما صاحبه."

(تفسير روح المعاني، سورة التوبة، الأيات93 الي 110، ج؛6، ص:21، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه ‌يصير ‌مسجدا."

(كتاب الوقف، مطلب في احكام المسجد، ج:4، ص:356، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے :

 "وقال ابويوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف."

(كتاب الوقف ، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف احكام مطلق الوقف ، ج:5 ، ص: 271/272، ط: دارالكتاب الاسلامي)

زاد المعاد ميں ہے:

"الخاصَّة‌‌ الثالثة: صلاة الجمعة التي هي من آكد فروض الإسلام، ‌ومن ‌أعظم ‌مجامع ‌المسلمين. وهي أعظم من كلِّ مجمع يجتمعون فيه وأفرضه سوى مجمع عرفة. ومن تركها تهاونًا بها طبع الله على قلبه. وقربُ أهل الجنة يوم القيامة وسبقُهم إلى الزيارة يوم المزيد بحسب قربهم من الإمام يوم الجمعة وتبكيرهم إليها."

(فصول في هديه في العبادات، فصل في هديه النبي صلي الله عليه وسلم في تعظيم يوم الجمعة، ج:1، ص:461، ط:دار ابن حزم)

فتاوی شامی میں ہے ؛

"وتؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقا على المذهب وعليه الفتوى...

وفي الرد:(قوله مطلقا) أي سواء كان المصر كبيرا أو لا وسواء فصل بين جانبيه نهر كبير كبغداد أو لا وسواء قطع الجسر أو بقي متصلا وسواء كان التعدد في مسجدين أو أكثر هكذا يفاد من الفتح."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة،ج:2، ص:141، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں