بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد کے ہوتے ہوئے نئی مسجد بنانے پرممانعت سے متعلق روایت کی تحقیق


سوال

میرے  محلے میں تین مساجد پہلے سے موجود ہیں اور اُن مساجد میں ہم سب نماز ادا کرنے بھی جاتے ہیں،  جو زیادہ دور نہیں ہیں۔ اب میری گلی کے نکڑ پر ایک صاحب  اپنی جگہ پر ایک نئی مسجد بنانے کی تیاری کر رہے ہیں،  کیا اِس سے پہلے والی مساجد کی رونق میں کمی نہیں  آ ئے گی؟  میں نے کسی کو اس بارے میں بات کرتے سنا کہ اس بارے میں حدیث ہے کہ ’’جب کوئی نئی  مسجد بنائےتو اُس کو روکا جائے اور اگر وہ پھر بھی بنا لے تو اُس کو آ باد کیا جائے‘‘۔ کیا ایسی کوئی  حدیثِ مبارکہ ہے؟

جواب

 پہلے سے موجود مساجد گر  نمازیوں کےلیے کافی ہیں، لوگوں کو پانچ وقت نماز کے لیے  وہاں پہنچنے میں دشواری بھی نہیں  ہے، تو بلاضرورت ان مساجد کے قریب میں مزید کوئی  مسجد بنانا ،جس سے پہلے سے موجودمساجد  کے نمازی بھی تقسیم ہو کر کم ہوجائیں، شرعاً منع ہے، او ر اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس سے مساجد کی رونق (مسلمانوں کاکثیر تعداد میں جمع ہو کر  باجماعت نمازادا کرنےکا اجتماعی منظر ) میں ضرور کمی واقع ہوگی،  اسی بارے میں علامہ بغوی رحمہ اللہ (المتوفى : 510ھـ)  اپنی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں: 

"عن عطاء لما فتح الله الأمصار على عمر رضي الله تعالى عنه أمر المسلمين أن يبنوا المساجد، وأن لا يتخذوا في مدينة مسجدين يضار أحدهما صاحبه". 

يعني عطاء  رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالي نےمختلف  شہروں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فتح فرمایا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ مسجدیں بنائیں ، اور یہ کہ کسی شہر میں دو مسجدیں نہ بنائیں جو ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں ۔

(تفسير بغوى، سورة التوبة ، آيت نمبر (108) ، (2/ 388)، ط/ دار إحياء التراث العربي -بيروت)  

علامه قرطبي رحمه الله (المتوفى: 671ھ)  فرماتے ہیں : 

 "ولا يمنع بناء المساجد إلا أن يقصدوا الشقاق والخلاف، بأن يبنوا مسجدا إلى جنب مسجد أو قربه، يريدون بذلك تفريق أهل المسجد الأول وخرابه واختلاف الكلمة". 

يعني مساجد كے بنانے سے نہیں روکا جائے گا،سوائے اس کے  کہ   لوگ  اس(مساجد بنانے ) سے  لڑائی جھگڑے کا ارادہ رکھتے ہوں ، کہ ایک مسجد کے پہلو  میں دوسری مسجد بنائیں یا اس کے قریب دوسری مسجد بنائیں، اس سے ان کا ارادہ یہ ہو کہ پہلی مسجد کے لوگوں میں تفریق ہوجائے،اور وہ مسجد ویران ہوجائے ، اور ان کا آپس میں اختلاف ہوجائے ۔

(تفسیر قرطبی ، سورۃ بقرہ، آیت نمبر(114)، (2/ 78)، ط/ دار الكتب المصرية ۔   قاهرة)

 

 مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس طرح بلا ضرورت مسجد کے پہلو یا قرب میں دوسری مسجد بنانے کی شرعا  اجازت نہیں ہے، اور  مساجد کی تعمیر کے حوالے سے بہت سے فضائل  احادیث مبارکہ میں نقل ہوئے ہیں، مگر اس حوالے سے سوال میں مذکور روایت ہمیں تلاش کے باوجود نہیں مل سکی، لہذا جب تک کسی معتبر سند سے ان الفاظ کا ثبوت  نہ  مل جائے، انہیں بیان کرنے سے احتراز کیا جائے ۔ 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں