بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد میں متعدد جگہ تراویح کی جماعت قائم کرنا


سوال

 ہماری مسجد میں بحمداللہ پچھلے چالیس سال سے تراویح میں قرآن کریم کاختم ہوتاہے ، لیکن اب اس مرتبہ محلے کے بعض لوگ اسی مسجد ہی میں اوپروالی  منزل میں دوسری جماعت کی ترتیب بنانے کے خواہشمندہیں، جب کہ دوسری جماعت بنانے کی صورت میں اہل محلہ کے درمیان قوی فتنے اورانتشارکااندیشہ ہے ۔ تواس صورتحال کے پیش نظردوسری جماعت کوروکاجاسکتاہے یانہیں ؟براہ کرم مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

 واضح رہے شرعی نقطہ نظرسے افضل اور بہتر یہی ہے کہ ایک مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے تراویح پڑھی جائے، تاہم حفاظ کرام کی کثرت اوران کوقرآن کریم پختہ یادرہنے کی غرض سے اگروسیع اورکشادہ مسجد میں بیک وقت دویازیادہ مختلف مقامات پر تراویح کی متعدد جماعتیں منعقد کی جائیں  اور ایک کو دوسرے کی آواز سے حرج بھی نہ ہو،تو جائز ہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں اگرمسجد کی دوسری منزل میں بھی تراویح کی جماعت منعقد کرنے کی صورت میں دونوں کی آوازمیں ٹکراؤنہ ہوتوضرورتاً مسجدکی دوسری منزل میں بھی تراویح کی جماعت منعقد کرناجائز ہے۔

مشكاة المصابيح ميں هے :

"عن عبد الرحمن بن عبد القاري قال: ‌خرجت ‌مع ‌عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم. قال عمر رضي الله عنه: نعم البدعة هذه والتي تنامون عنها أفضل من التي تقومون. يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله. رواه البخاري."

(مشكاة المصابيح ، باب قيام شهر رمضان ، الفصل الثالث 1/ 407 ط: المكتب الاسلامي )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں