بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک کمرہ میں نامحرم مرد و عورت کا ساتھ بیٹھ کر کھانا اور مداہنت یعنی دینی معاملہ میں چشم پوشی سے کام لینے سے متعلق وعیدیں


سوال

میں ایک طالبہ ہوں اور پڑھائی کے لئے ہمیں ہسپتال میں رکنا پڑتا ہے، ہسپتال میں لڑکیوں کے آرام کے لئے ایک الگ کمرہ موجود ہے، جس میں مرد نہیں آسکتے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب کھانے کا وقت آتا ہے تو ہماری ساتھی اپنے مرد دوست کو بھی ساتھ کھانے پر بلا لیتی ہیں، گرلز روم میں اور ہم ساتھ کھانا کھاتے ہیں، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ بے پردگی نا ہو، کیا میں اس دسترخوان پر کھانا کھا سکتی ہوں جس پر نا محرم موجود ہو؟ اگر نہیں تو پھر میں کیسے اپنی ساتھیوں کو منع کروں کہ انہیں سمجھ بھی آجائے اور برا بھی نہ لگے؟

جواب

ایک ہی کمرہ  میں نامحرم مرد و عورت کا جمع ہونا، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا اوربلا ضرورتِ شرعیہ بات چیت کرنا شرعاً جائز  نہیں ہے، کیوں کہ نامحرم مرد و عورت دونوں کا ایک دوسرے سے شرعی پردہ لازم ہے،آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو بغیر شرعی عذر کے دیکھنا ہرگز جائز نہیں ہے،  صورت مسئولہ میں سائلہ کے لیے ایسے دسترخوان پر کھانا کھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے جس پر نامحرم مرد موجود ہو اور سائلہ کی دوست اپنے نامحرم مرد دوستوں کو ساتھ کھانے کے لیے بلاتی ہیں اس عمل سے وہ سب خود بھی گناہ گار ہیں اور ان کے بلانے کی وجہ سے دوسری باپردہ لڑکیوں کے بھی نامحرم مردوں سے اختلاط کا باعث  بن رہا ہے، اس کا الگ گناہ بھی سائلہ کی دوستوں پر ہوگا ، اس لیے سائلہ  ایسے نامحرم مرد و زن کے مخلوط دسترخوان سے الگ ہو کر کھانا کھائے ، اگر سائلہ اسی دسترخوان پر ہی کھانا کھاتی رہی تو سائلہ بھی اس معصیت کے وبال سے بری الذمہ نہیں ہوگی، لہٰذا اس معصیت  اور گناہ سے جلد از جلد بچنے کی  کوشش کرنا ضروری ہے۔

سائلہ اس گناہ سے اپنی ساتھیوں کو اس طرح سمجھا کر منع کرسکتی ہے کہ  دیکھو! ہمارا دین اجنبی مرد و عورت کو ایک دوسرے سے پردہ کرنے کا حکم دیتاہے، ایک دوسرے سے اختلاط، بے پردگی اور غیر شرعی تعلقات قائم کرنے سے منع کرتا ہے، اس لیے یہ شریعت کا معاملہ ہے،ہم ایک دن اللہ تعالٰی کے سامنے اپنے تمام اعمال کے جواب دہ ہوں گی، اس لیے ہمیں اس میں بے پرواہی نہیں کرنی چاہییے،  تم لوگ اس کمرے میں اجنبی مرد کو ساتھ بلا کر خود بھی گناہ کے مرتکب ہوتی ہوں اور دوسروں کو بھی گناہ میں مبتلا کر کے دوہرا  گناہ کما رہی ہوں، اس لیے  اگر خود اس گناہ سے  پرہیز نہیں کر  سکتیں تو کم از کم دوسروں کو بھی اس گناہ میں مبتلا کر کے دوگنا گناہ مت کمائیں!

اگر  سمجھانے پر بھی سائلہ کی دوست اس حرکت سے باز نہ آئیں تو ہسپتال کی متعلقہ انتظامیہ سے   شکایت کر کے نامحرم مرد وزن کے اس اختلاط کو روکنے کی کوشش کی جائے،کیوں کہ کسی کی دل شکنی اور ناضگی کے خطروں کی وجہ سے شرعی احکام میں سستی برتنا "مداہنت" کہلاتا ہے، جن پر قرآن وحدیث  میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے کسی کی دل شکنی ہو تو اس کا اعتبار نہیں اور کسی کا اس درجہ خیال کرنا جس سے شریعت کا حکم معطّل ہو جائے یہ ہرگز درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ " [سورة المائدة : 79]

ترجمہ:جو بُرا کا انہوں نے کر رکھا تھا اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے، واقعی ان کا فعل بےشک بُرا تھا۔ (بیان القرآن)

مسند احمد میں ہے :

" عن علي رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : لا طاعة لمخلوق في معصية الله عز وجل ."

(الجزء الثاني : ج 2 ، ص 333، ط : مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :" اللہ تعالٰی کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ "

سنن ترمذی میں ہے:

" عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم : " إن أول ما دخل النقص على بنى إسرائيل كان الرجل يلقى الرجل، فيقول: يا هذا! اتق الله، ودع ما تصنع، فإنه لا يحل لك، ثم يلقاه من الغد، فلا يمنعه ذلك أن يكون أكيله، وشريبه، وقعيده، فلما فعلوا ذلك ضرب الله قلوب بعضهم ببعض". ثم قال: (لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ) إلى قوله (فَاسِقُونَ) ثم قال « كلا! والله لتأمرن بالمعروف، ولتنهون عن المنكر ولتأخذن على يدى الظالم، ولتأطرنه على الحق أطرا، ولتقصرنه على الحق قصرا."

(باب الأمر والنهي : ض 213، ج 4، ط : دار الکتاب العربي، بیروت)

ترجمہ: "عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سب سے پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں، پھر اگلے دن اس سے ملتا تو وہ اپنی اسی سابقہ (منکر)حالت پر برقرار رہتا، اس کے باوجود اس کا ہم نوالہ ، ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی ۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا " پھر آپ نے آیاتِ کریمہ"لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴿٧٨﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿٨٠﴾وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ﴿٨١﴾"۔(سورہ المائدہ:78-81)۔ترجمہ: (بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا (79) ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وه کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لیے آگے بھیج رکھا ہے وه بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وه ہمیشہ عذاب میں رہیں گے (80) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں(81)")۔ ـــــــــــ تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا:" خبردار ! اللہ کی قسم ! تمہیں بالضرور نیکی کا حکم دینا ہو گا ، برائی سے روکنا ہو گا ، ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا اور اسے حق پر لوٹانا اور حق کا پابند بنانا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے ملا دے گا، پھر تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی ہے۔ "

سنن ترمذی میں ہے:

" عن عقبة بن عامر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم، قال :" إياكم والدخول على النساء!" فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله! أفرأيت الحمو؟، قال: "الحمو الموت" قال: وفي الباب عن عمر و جابر و عمرو بن العاص، قال أبو عيسى: حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: "لا يخلون رجلا بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان" .

(باب کراهیة الدخول علی المغیبات: ص 474، 3ج، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ:"  حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمو (یعنی شوہر کے بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘ تو موت ہے۔  اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے، عورتوں کے پاس  جانے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ "

فتاوٰی شامی میں ہے:

" إلا من أجنبیة فلایحلّ مسّ وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام ... ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخریٰ کراهة تحریم ."

(فصل في النظر والمس: ص367، ج 6، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں