ایک بڑا علاقہ ہے جہاں کئی خاندان آباد ہیں، انہوں نے ایک بڑی نہر سے ایک چھوٹا نالا نکالا ہے، جس سے تمام لوگ باری باری اپنی زمینیں سیراب کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ:کیا اس نالے کے آغاز میں واقع ایک زمین کا مالک، اس نالے کے درمیان یا آخر میں واقع ایک زمین کے مالک پر صرف اس بنیاد پر شفعہ کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کی زمین اور مشفوعہ زمین (یعنی جس پر شفعہ کیا جا رہا ہے) دونوں اسی نالے سے سیراب ہوتی ہیں؟ حالانکہ اس شفیع کی کوئی زمین، جائیداد یا جنگل مشفوعہ زمین کے بالکل قریب نہیں ہے، بلکہ وہ زمین تقریباً ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اسی طرح ایک دوسرا شخص ہے، جس کی زمین مشفوعہ زمین کے بالکل سامنے ہے، تاہم دونوں کے درمیان ایک عام راستہ حائل ہے۔ لیکن یہ راستہ اسی دوسرے شخص کی ملکیت ہے۔تو کیا یہ بھی شفعہ کرسکتا ہے؟
اور ان دونوں میں زیادہ حق دار کون ہیں؟ کیوں کہ پہلے شخص کو یہ ترجیح حاصل ہے کہ اس کی زمین اور مشفوعہ زمین ایک ہی لائن میں واقع ہیں۔ جبکہ دوسرے شخص کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس کی زمین مشفوعہ زمین کے سامنے ہے، درمیان میں اگر چہ راستہ حائل ہے، لیکن وہ اسی کی ملکیت ہے،لیکن دونوں ہی اسی ایک نالے سے زمین کو سیراب کرتے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں دونوں حضرات ( یعنی جس کی زمین نالے کے آغاز میں مشفوعہ زمین کے لائن میں واقع ہے اور وہ شخص جس کی زمین مشفوعہ زمین کے سامنے قریب میں واقع ہے ) شفعہ کے حق میں برابر کے شریک ہیں، ان میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہیں، کیوں کہ دونوں ہی مشفوعہ زمین کے ساتھ حقِ مبیع (یعنی ایک ہی نالے سے زمین کی سیرابی) میں شریک ہیں، لہٰذا اگر ان دو کے سوا کوئی اور شفعہ کا دعوے دار نہ ہو تو دونوں افراد مشفوعہ زمین کو برابر برابر، یعنی آدھا آدھا تقسیم کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فسبب وجوب الشفعة أحد الأشياء الثلاثة الشركة في ملك المبيع، والخلطة وهي الشركة في حقوق الملك والجوار."
(كتاب الشفعة، سبب ثبوت حق الشفعة، ج:5، ص:4، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(تجب)...(بقدر رءوس الشفعاء لا الملك) خلافا للشافعي (للخليط) متعلق بتجب (في نفس المبيع. ثم) إن لم يكن أو سلم (له في حق المبيع)...(ثم لجار ملاصق)
(قوله بقدر رءوس الشفعاء) لاستوائهم في استحقاق الكل لوجود علته فيجب الاستواء في الحكم."
(كتاب الشفعة، ج:6، ص:219، ط:سعید)
وفیه ایضاً:
"بيانه شرب نهر مشترك بين قوم تسقى أراضيهم منه بيعت أرض منها فلكل أهل الشرب الشفعة.
(قوله فلكل أهل الشرب) أي من ذلك النهر الخاص ومثله الطريق الخاص، فكل أهله شفعاء ولو مقابلا كما قدمناه، فالذي في أوله كالذي في آخره أتقاني."
(كتاب الشفعة، ج:6، ص:220، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولو نزع من هذا النهر نهر آخر فيه أرضون أو بساتين أو كروم فبيعت أرض أو بستان شربه من هذا النهر النازع فأهل هذا النهر أحق بالشفعة من النهر الكبير ولو بيعت أرض على النهر الكبير كان أهله وأهل النهر النازع في الشفعة سواء، لاستوائهم في الشرب هكذا في البدائع."
(كتاب الشفعة، الباب الثاني في بيان مراتب الشفعة، ج:5، ص:166، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611102674
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن