بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہی مجلس میں تین طلاق کا حکم


سوال

2009 میں میرے شوہر نے مجھے ایک مجلس میں تین  مرتبہ کہا '' میں تمہیں طلاق دیتا ہوں''،میں نے مسئلہ  معلوم کرنے کی کوشش کی تو مجھے ایک جگہ سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس میں تین  طلاق  دینے سے ایک  ہی واقع ہوتی ہے، اس لیے میں اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنے لگی،اس دوران ہمارے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں ہوا۔

پھر کچھ عرصے بعد اسی طرح ایک ہی مجلس میں  یہی الفاظ کہے، میں بہت پریشان ہوئی اور میں نے خود قرآن کا مطالعہ شروع کیا ،سورۃ البقرہ  سورت النساء وغیرہ کا مطالعہ کیا ، اس سے مجھے معلوم ہوا کہ جب تک عورت کا کوئی بندوبست  نہ ہو وہ شوہر کے گھر رہ سکتی ہے طلاق  کے بعد بھی،البتہ عدت کے دوران  ہی شوہر نے مجھے بہت پریشان  کیا اور  گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ،میں نے ایک کرائے کا فلیٹ لے کر  اس  میں اپنی  عدت مکمل کی،عدت مکمل ہونے کے  بعد میں نے اپنے شوہر سے سے قانونی طلاق نامے کا مطالبہ کیا ،تو وہ کہنے  لگا میری نیت طلاق کی نہیں تھی میں نے غصے میں   طلاق کے  الفاظ کہے تھے، جب کہ مجھے یقین ہے کہ اس کی نیت طلاق کی تھی ۔

میرا چھوٹا بیٹا ضد کرتا ہے اپنے والد کے ساتھ رہنے پر ، شریعت کی روشنی میں رہنمائی کریں۔

جواب

1)ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ،  حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، میاں بیوی  کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

نیز واضح رہے کہ  شرعاًاگر کسی نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے دی تو ان سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

2)عدت کا حکم تو یہی ہے  کہ عورت عدت  شوہر کے گھر میں گزارے اور شوہر کی ذمہ داری  ہے کہ وہ عدت کے زمانے میں عورت کو رہائش فراہم کرے،البتہ اگر شوہر عورت کو عدت گزارنے کے لیے رہائش فراہم نہ کرے تو عورت کسی اور محفوظ جگہ میں بھی اپنی عدت مکمل کر سکتی ہے۔

3) میاں بیوی میں جدائی کے بعد بچوں کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ  سات سال کی عمر  تک  لڑکے کی اور نوسال کی عمر  تک لڑکی  کی پرورش کا حق والدہ کو ہوتا ہے،  اس کے  بعد بچوں کی پرورش کا حق والد کو ہوتا ہے،لہذا صورت مسئولہ  میں چونکہ سائلہ کا بچہ تقریبا 14 سال کا  ہے، اگر وہ والد کی پرورش میں رہنا چاہتا ہے اور والد  بھی اس کی پرورش پر راضی ہے  تو بچہ اپنے والد کی پرورش میں رہے گا۔لیکن مان جب چاہے گی اپنے بچے سے ملاقات کرسکے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

’’وأما بيان قدر الطلاق وعدده فنقول وبالله التوفيق الزوجان إما إن كانا حرين وإما إن كانا رقيقين وإما إن كان أحدهما حرا والآخر رقيقا فإن كانا حرين، فالحر يطلق امرأته الحرة ثلاث تطليقات بلا خلاف.‘‘

(کتاب الطلاق،فصل فی بیان قدر الطلاق وعددہ،ج:3،ص:97،ط:دار الکتب العلمیۃ)

صحیح بخاری میں ہے:

’’حدثني ‌محمد بن بشار: حدثنا ‌يحيى، عن ‌عبيد الله قال: حدثني ‌القاسم بن محمد، عن ‌عائشة، «أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.‘‘

(کتاب الطلاق،باب من اجاز طلاق الثلاث،ج:7،ص:43،رقم:5261،ط:سلطانیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

قال في الفتح بعد سوق الأحاديث الدالة عليه: وهذا يعارض ما تقدم، وأما إمضاء عمر الثلاث عليهم مع عدم مخالفة الصحابة له وعلمه بأنها كانت واحدة فلا يمكن إلا وقد اطلعوا في الزمان المتأخر على وجود ناسخ أو لعلمهم بانتهاء الحكم لذلك لعلمهم بإناطته بمعان علموا انتفاءها في الزمن المتأخر وقول بعض الحنابلة: توفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عنهم أو عن عشر عشر عشرهم القول بوقوع الثلاث باطل؟ أما أولا فإجماعهم ظاهر لأنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر حين أمضى الثلاث، ولا يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف تسمية كل في مجلد كبير لحكم واحد على أنه إجماع سكوتي.

وأما ثانيا فالعبرة في نقل الإجماع نقل ما عن المجتهدين والمائة ألف لا يبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة، والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال} [يونس: 32].‘‘

(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،ج:3،ص:233،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

’’(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.

 (باب الحضانۃ،  ج:3، ص :566، ط: سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

’’ذكر الحجاج لإيقاع الطلاق الثلاث معا

قال أبو بكر: قوله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} الآية، يدل على وقوع الثلاث معا مع كونه منهيا عنها، وذلك; لأن قوله: {الطلاق مرتان} قد أبان عن حكمه إذا أوقع اثنتين بأن يقول أنت طالق أنت طالق في طهر واحد; وقدبينا أن ذلك خلاف السنة، فإذا كان في مضمون الآية الحكم بجواز وقوع الاثنتين على هذا الوجه، دل ذلك على صحة وقوعهما لو أوقعهما معا; لأن أحدا لم يفرق بينهما.‘‘

وفیہ ایضا:

’’وقد تقدم ذكر أقاويل السلف فيه، وأنه يقع وهو معصية; فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا وإن كانت معصية.‘‘

(ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا،ج:1،ص:467،469،ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

شرح النووی للمسلم میں ہے:

’’وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث.‘‘

(کتاب الطلاق،با ب طلاق الثلاث،ج:10،ص:70،ط:دار احیا التراث العربی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں