بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دن نمازیں پڑھنے کے بعد ایسی جگہ سفر کیا جہاں اسی دن کی نمازوں کا وقت دوبارہ لوٹ آنے کی صورت نماز کا حکم


سوال

ایک شخص جنوبی کوریا سے کینیڈا کا سفر کر رہا ہے، جنوبی کوریا میں اس کی پرواز کا وقت اور تاریخ 18:50(شام) ہے اور کینیڈا میں لینڈنگ کا وقت 11:30(صبح)ہے ،وقت کا فرق سیول سے وینکوور تک 17گھنٹے کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جنوبی کوریا کینیڈا سے 17 گھنٹے آگے ہے اور وہ اسی تاریخ کو کینیڈا میں اترے گا، کیا اسے وہ تمام نمازیں دوبارہ ادا کرنی ہوں گی جو اس نے جنوبی کوریا میں پڑھی تھیں؟

 

جواب

صورت مسئولہ میں جو شخص تقریبا شام 6:50 بجے  جنوبی کوریا سے روانہ ہوا ور صبح 11:30بجے کینیڈاپہنچاتو  جنوبی کوریا میں شام 6:50 سے پہلے تک اس نے جو نمازیں پڑھی ہیں وہ اس کے ذمہ لازم نہیں ہے اور11:30بجے   کینیڈا پہنچ کر جب ظہر کا وقت آ ئے گا تو یہ ظہر ، عصر باقی نمازیں پڑھے گا ااور 6:50 سے 11:30 بجے کے درمیان اگر اس نے مغرب عصر اور فجر کی نمازیں نہیں پڑھیں  تو وہ بھی پڑھے گا،اور    اگر اس نے  مغرب  ،عشاء اور فجر کی نماز  ادا کرلی ہے تو کینیڈا پہنچ کر مذکورہ نمازیں دوبارہ پڑھنا اس کے ذمہ لازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: الظاهر نعم) بحث لصاحب النهر حيث قال: ذكر الشافعية أن الوقت يعود «؛ لأنه عليه الصلاة والسلام نام في حجر علي - رضي الله عنه - حتى غربت الشمس، فلما استيقظ ذكر له أنه فاتته العصر فقال: اللهم إنه كان في طاعتك و طاعة رسولك فارددها عليه، فردت حتى صلى العصر» و كان ذلك بخيبر، و الحديث صححه الطحاوي و عياض، و أخرجه جماعة منهم الطبراني بسند حسن، و أخطأ من جعله موضوعًا كابن الجوزي، و قواعدنا لاتأباه اهـ قال ح: كأنه نظير الميت إذا أحياه الله تعالى فإنه يأخذ ما بقي من ماله في أيدي ورثته فيعطى له حكم الأحياء، و انظر هل هذا شامل لطلوع الشمس من مغربها الذي هو من العلامات الكبرى للساعة؟ اهـ. قال ط: والظاهر أنه لايعطى هذا الحكم؛ لأنه إنما يثبت إذا أعيدت في آن غروبها كما هو واقعة الحديث، أما طلوعها من مغربها فهو بعد مضي الليل بتمامه. اهـ.

قلت: على أن الشيخ إسماعيل رد ما بحثه في النهر تبعا للشافعية، بأن صلاة العصر بغيبوبة الشفق تصير قضاء ورجوعها لايعيدها أداء، وما في الحديث خصوصية لعلي كما يعطيه قوله عليه الصلاة والسلام: «إنه كان في طاعتك وطاعة رسولك» . اهـ.

قلت: و يلزم على الأول بطلان صوم من أفطر قبل ردها و بطلان صلاته المغرب لو سلمنا عود الوقت بعودها للكل، والله تعالى أعلم."

(کتاب الصلوۃ جلد ۱ ص: ۳۶۰ ، ۳۶۱ ط: دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:

سوال:"اگر کسی نے جمعہ کی نماز اول وقت میں پڑھی پھر تیز رفتار فلائٹ میں گیا  جہاں پہنچا وہاں پھر جمعہ کا وقت داخل ہوا تو دوبارہ نماز فرض ہے یا نہیں ؟

جواب:فرض نما ز دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے، فریضہ ادا ہوچکا ہے ، البتہ احترامًا للوقت اور مسلمانوں کی موافقت میں پڑھ لینا چاہیے۔"

(کتاب الصلوۃ (اوقات نماز کا بیان) جلد ۲ ص:۴۷ ط:زمزم پبلشرز)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال:"ایک شخص یہاں مغرب کی نماز ادا کر کے ہوائی جہاز کے ذریعہ مکہ پہونچ جائے ، مکہ میں مغرب کی نماز تفاوت وقت کے سبب ابھی ہی ہوتی ہے،  کیا پھر دوبارہ اس کو مغرب کی نماز ادا کرنا لازم ہے؟

جواب:احترامًا للوقت و موافقتًا للمسلمینوہ نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے ، اگرچہ اس کا فریضہ ادا و مکمل ہوچکا۔"

(کتاب الصوم جلد ۱۰ ص:۳۷ ، ۳۸ ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں