بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دفعہ بسم اللہ پڑھ کر کئی مرغیوں کو ذبح کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل فیکٹریوں میں یہ رواج ہے کہ مرغی ذبح کرتے وقت صرف اول مرغی پر بسم اللہ پڑھتے ہیں، اس کے بعد اسی بسم اللہ سے دوسری مرغیاں ذبح کردیتے ہیں، تو کیا اس طرح بعد والی مرغیاں حلال ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں ذبح کے منجملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہر جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام (بسم اللہ ) لیا جائے، اگر ذبح کرتے وقت عمداً یعنی جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو اس صورت میں مذبوحہ جانور حلال نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ معاملے میں چونکہ صرف پہلی مرغی کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھتے ہیں، بقیہ مرغیوں کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتے بلکہ پہلی دفعہ پڑھی گئی بسم اللہ کو بقیہ مرغی کے ذبح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، تو شرعاً پہلے مرغی جس پر بسم اللہ پڑھی گئی صرف وہ حلال ہوگی بقیہ مرغی حلال نہیں ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الهداية: ثم التسمية في ذكاة الاختيار ‌تشترط ‌عند ‌الذبح۔"

(‌‌كتاب الذبائح: 6/ 302، ط: سعید)

وفیه ایضا:

"(وتارك تسمية عمدا) قال ابن عابدین: (قوله وتارك تسمية عمدا) ... أي ولا تحل ذبيحة من تعمد ترك التسمية مسلما أو كتابيا لنص القرآن۔"

(‌‌كتاب الذبائح: 6/ 299، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى محل الذكاة فمنها تعيين المحل بالتسمية في الذكاة الاختيارية ولا يشترط ذلك في الذكاة الاضطرارية وهي الرمي والإرسال إلى الصيد؛ لأن الشرط في الذكاة الاختيارية ذكر اسم الله تبارك وتعالى على الذبيح لما تلونا من الآيات ولا يتحقق ذلك إلا بتعيين الذبيح بالتسمية ولأن ذكر الله تبارك وتعالى لما كان واجبا فلا بد وأن يكون مقدورا، والتعيين في الصيد ليس بمقدور؛ لأن الصائد قد يرمي ويرسل على قطيع من الصيد وقد يرمي ويرسل على حس الصيد فلا يكون التعيين واجبا والمستأمن مقدور فيكون واجبا۔  وعلى هذا يخرج ما إذا ذبح شاة وسمى ثم ذبح شاة أخرى يظن أن التسمية الأولى تجزي عنهما لم تؤكل ولا بد من أن يجدد لكل ذبيحة تسمية على حدة، ولو رمى سهما فقتل به من الصيد اثنين لا بأس بذلك، وكذلك لو أرسل كلبا أو بازيا وسمى فقتل من الصيد اثنين فلا بأس بذلك؛ لأن التسمية تجب عند الفعل وهو الذبح فإذا تجدد الفعل ‌تجدد ‌التسمية، فأما الرمي والإرسال فهو فعل واحد وإن كان يتعدى إلى مفعولين فتجزي فيه تسمية واحدة۔"

(كتاب الذبائح والصيود: فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول: 5/ 50، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں