ایک کمپنی (AGS) بیٹری کی ہے، وہ اپنے ڈسٹربیوٹرز (جو کہ بیٹری خرید کر فروخت کرتے ہیں ان کو یہ کہتی ہے کہ اگر آپ ہمارے مال کے ساتھ دوسری کمپنی کا مال خرید کر فروخت کریں گے تو ہماری طرف سے اتنا ڈسکاؤنٹ ہوگا۔ اور اگر صرف ہمارا ہی مال خرید کر بیچیں گے تو ہم آپ کو اضافی 2 فیصد ڈسکاؤنٹ دیں گے اور اگر آپ دوسری کمپنیوں کی بیٹریاں بیچنا چاہیں تو ہمیں آپ اطلاع کر دیں ، اس صورت میں ہم آپ کو 2 فیصد اضافی ڈسکاؤنٹ نہیں دیں گے۔
اب اگر ڈسٹربیوٹر کمپنی سے چھپا کر کسی اور کمپنی کا مال بیچتا ہے اور کمپنی کو پتہ چل جاتا ہے کہ ڈسٹریبیوٹر نے عہدشکنی کر کے دوسری کمپنی کا مال بھی خرید کر فروخت کیا تو کمپنی اس پورے مہینہ کے دو فیصد کاٹ لیتی ہے ،تو کیا اس کے لیے یہ 2 فیصد اضافی منافع لینا جائز ہے ؟ اگر اس طرح لے لیا ہو تو اس رقم کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے ڈسٹر بیوٹرز (کمپنی سے مال خرید کر آگے بیچنے والے) اس طرح چھپا کر دوسری کمپنیوں کے مال بھی بیچتے ہیں اور مذکورہ کمپنی سے اضافی ڈسکاؤنٹ بھی لیتے ہیں تو یہ دھوکہ دہی اور خیانت ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے، دھوکہ دہی اور خیانت کے ذریعہ حاصل کی گئی رقم ناجائز ہے، اس کو اصل مالک یعنی مذکورہ کمپنی کو واپس لوٹانا شرعاً لازم ہے۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
" قال بعض مشايخنا: كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا : لو مات الرجل، وكسبه من بيع الباذق أو الظلم، أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا، وهو أولى بهم، ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ."
(الحظر والإباحة ، فصل في البیع : ج 6، ص 385، ط : سعید)
بذل المجہود فی حل سنن أبی داود میں ہے:
"لأن الخائن هو الذي يأخذ ما ليس له أخذه ظلما أو عدوانا."
(كتاب البيوع، باب: في الرجل يأخذ حقه من تحت يده: 11/ 262، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144309100351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن