بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوہ،دو بیٹوں، اورایک بیٹی کے درمیان میراث کی تقسیم


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہوا اس نے ترکہ میں ایک تین منزلہ 120 گز کا گھر ، اور  ایک تین منزلہ 200 گز کا کارخانہ چھوڑا ، ورثاء میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، 120 گز کا گھر حکومت کی طرف سے کٹنگ کی وجہ سے 90 گز کا رہ گیا ہے، اور اس کٹنگ کے بدلے حکومت کی طرف سے ہمیں  فی الحال 3 لاکھ60 ہزار روپے ملے تھے جو میں نے گھر کی تعمیر پر خرچ کیے ہیں، اور تمام ورثاء اس پر راضی بھی تھے، اور کچھ اور رقم جو بچ گئی تھی وہ بھی مل گئی ہے اور کچھ حصے کے بدلے میں ہمیں خالی زمین دیں گے۔

اب مجھے کچھ چیزوں کا حکم معلوم کرنا ہے:

1۔میرے شوہر مرحوم نے زندگی میں کہا تھا کہ ایک فلور میں ایک بیٹا ،دوسرے فلور میں دوسرا  اور تیسرے فلور میں بیٹی رہے گی۔ اس بات کیا حیثیت ہے ؟یہ صرف انہوں  نے کہا تھا الگ الگ دیے نہیں تھے۔

2۔ گھر کی کٹنگ کے جو پیسے مل گئے وہ میں نے مشترکہ گھر  کی تعمیر پر خرچ کر دیے  اور کچھ باقی ہیں وہ ابھی ملے ہیں ان کی تقسیم کیسے ہوگی؟

3۔ اگر تمام بہن بھائی میراث کی تقسیم نہ چاہیں بلکہ جب تک والدہ حیات ہیں اسی کی پاس رہنے دیں(  یعنی اس کی نگرانی میں رہے  نہ کہ ملکیت میں) تو اس  کا کیا حکم ہے؟

4۔ اگر تقسیم نا کریں تو کارخانہ سے ملنے والے کرایہ میں تمام  ورثہ  شریک ہوں گے یا نہیں؟

5۔ اگر تقسیم ہو تو ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟

مذکورہ بالا امور میں شرعی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں:

1۔والد مرحوم کے صرف  اتنا کہنے سے  کہ" ایک فلور میں ایک بیٹا ،دوسرے فلور میں دوسرا  اور تیسرے فلور میں بیٹی رہے گی" مذکورہ فلیٹ بہن  بھائیوں کے نہیں ہوں گے، بلکہ مرحوم  کی وفات کے بعد یہ تینوں فلیٹ  ان کی میراث شمار ہو ں گے اور تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم ہوں گے، البتہ اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے والد مرحوم کی بتائی ہوئی تقسیم کے مطابق آپس میں گھر تقسیم کرلیں اور مرحوم کی بیوہ بھی رضامند ہو تو اس کی تقسیم میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

2۔کٹنگ کے جو پیسے پہلے مل گئے تھے اور آپ نے تعمیر میں خرچ کردیے تھے، تو اگر یہ واقعی تمام ورثاء کی اجازت سے کیا تھا یا وہ اس پر راضی تھے،تو آپ  کا یہ کرنا صحیح تھا، اب جو پیسے ملے ہیں یا جو زمین ملے گی، وہ تمام ورثاء کے درمیان میراث میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔

3۔اگر تمام ورثاء اس پر راضی ہوں کہ میراث تقسیم نہیں کرتے بلکہ مشترکہ  طور پر والدہ کی نگرانی میں رہنے دیتے ہیں، تو یہ جائز ہے، البتہ  اختلافات سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ مرحوم کی میراث   جلد  تقسیم کر دیں۔

4۔ جی ہاں، اگر میراث تقسیم نہ کریں تو  اس سے ملنے والا  کرایہ  تمام ورثاء کاحق ہے، اور وہ تمام ورثاء میں  شرعی ضابطہ میراث کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

5۔ اگر میراث تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا شرعی طریقہ  یہ ہے سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نےکوئی جائز وصیت کی  ہو تو  اس کو ایک تہائی  ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ (منقولہ و غیر منقولہ )  کو 40 حصوں میں تقسیم کر کے 5 حصے  بیوہ کو،  14حصے کر کے ہر ایک بیٹے کو، اور 7  حصے   بیٹی کو ملیں گے۔

 تقسیم  کی صورت یہ ہے:

میت 8/ 40

بیوہبیٹابیٹابیٹی
17
514147

یعنی کل ترکہ کا 12.5فیصد  بیوہ کو ، 35فیصد ہر ایک بیٹے کو ، 17.5فیصد بیٹی کو ملے گا۔

الدر المختار مع الرد میں ہے: 

"و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح."

(کتاب الهبة، ج:5، ص:688، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به)."

(کتاب الهبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

شرح المجلہ میں ہے:

"تنقسم کل من قسمةالجمع وقسمةالتفریق إلی نوعین ، قسمةالرضا وقسمةالقضا……. قسمة الرضا القسمةالتي تجري بین المتقاسمین في الملك المشترك بالتراضي أو برضی الکل عند القاضي."

(الباب الثانی فی بیان القسمة، ج:4، ص:58، ط:رشیدیة)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) الرضا في أحد نوعي القسمة، وهو رضا الشركاء فيما يقسمونه بأنفسهم إذا كانوا من أهل الرضا، أو رضا من يقوم مقامهم، إذا لم يكونوا من أهل الرضا فإن لم يوجد لا يصح، حتى لو كان في الورثة صغير لا وصي له، أو كبير غائب، فاقتسموا؛ فالقسمة باطلة؛ لما ذكرنا أن القسمة فيها معنى البيع، وقسمة الرضا أشبه بالبيع، ثم لا يملكون البيع إلا بالتراضي، فكذا القسمة، إلا إذا لم يكونوا من أهل الرضا كالصبيان والمجانين فيقسم الولي أو الوصي إذا كان في القسمة منفعة لهم؛ لأنهما يملكان البيع فيملكان القسمة."

(کتاب القسمة، ج:7، ص:22، ط: سعید)

درر الاحکام فی شرح مجلۃالاحکام میں ہے:

"الخلاصة:إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."

(الكتاب العاشر:الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة،  ج:3، ص:310، ط: دار الجيل)

شرح المجلہ  میں ہے:

"الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم."

(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج:3، ص:26، المادۃ: 1073، ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں