بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوہ،چاربیٹوں اورچاربیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

والد صاحب کا یک گھر ہے،والد صاحب وفات پاچکے ہیں،ہم سب بہن بھائی اسی گھر میں رہتے ہیں،والد صاحب کی وفات کے وقت گھر پر بجلی کے بل کی مد میں کوئی قرضہ نہیں تھا،ایک بہن کی شادی کے وقت بھی کوئی قرضہ نہیں تھا،یعنی بجلی کا بل ادا کرتے رہے ہیں،دوسری بہن کی شادی کے وقت بجلی کے بل کا قرضہ 10 لاکھ روپے تھا،یعنی یہ بہن بجلی استعمال کرنے میں شریک رہی  ہے،اب اس گھر پر 20 لاکھ روپے بجلی کے بل کا قرضہ ہے،ہم اس گھر کو فروخت کرکےتمام ورثاء کو حصہ دینا چاہتے ہیں،اس گھر کی تقسیم کیسے ہوگی؟ورثاء میں بیوہ،چار بیٹے،اور چار بیٹیاں ہیں۔نیز اس گھر کے فروخت ہونے کے بعد بجلی کا قرضہ پہلے ادا کیا جائے گایا ہر وارث کو حصہ دینے کے بعد ہر ایک سے اس کے حصے کی بجلی کا قرضہ وصول کیا جائےگا؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں والد کے ترکہ کی تقسیم   کاشرعی طریقہ یہ ہے کہسب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقو لہ  کو96 حصوں میں تقسیم کرکےمرحوم کی بیوہ کو 12 حصے،اس کے ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:والد:96/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
12141414147777

یعنی 100 فیصد میں سے مرحوم کی بیوہ کو12.5  فیصد،اس کے ہر ایک بیٹے کو14.583  فیصداور ہر ایک بیٹی کو  7.291فیصد ملے گا۔

نیز   جن اشیاء کا تعلق استعمال سے ہے،  ان کا خرچہ اصلاً استعمال کرنے والے کے ذمے  ہوتاہے مثلاً بجلی ، گیس وغیرہ ۔ صورتِ مسئولہ میں چوں کہ پہلی بہن کی شادی کے وقت تک کوئی قرضہ نہیں تھا،بل کی ادائیگی ہوتی رہی تھی،بعد ازاں اس بہن  کی شادی کے بعد سے  قرضہ چڑھا ہے،تو یہ بہن اس قرضہ میں  شامل نہیں ہوگی،بلکہ وہ تمام ورثاء جو اس بہن کے علاوہ مذکورہ مکان میں مقیم تھے ،ان سب کےذمہ اس قرض کا اداکرنا لازم ہوگا،اور ہر وارث سےاس کے شرعی حصہ کے بقدر قرض کی رقم منہا کی جائیگی،اس کے بعد مابقیہ رقم کو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے موافق تقسیم کرلیا جائے۔

شرح المجلۃ میں ہے:

"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم."

(الکتاب العاشر الشرکات ، المادۃ :1073،ج:3،ص:26 ط: دارالجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"ان نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموالحيث إن الغرم بالغنم."

(کتاب القسمة، مطلب لکل من الشرکاء السکنی في بعض الدار بقدر حصته،ج:6،ص:268،ط: سعید)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المادة (١٣٠٨) - (إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم)....

الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم." 

(الكتاب العاشر:الشركات،الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة،الفصل الأول في بيان تعمير الأموال المشتركة۔۔،ج:3،ص:310،ط:دارالجيل)

القواعد والضوابط الفقهية في الضمان المالي میں ہے:

"وأما قاعدة (الغرم بالغنم):فإنها وإن جاءت على عكس قاعدة (الخراج بالضمان) - أي الغنم بالغرم - في اللفظ إلا أن المعنى فيهما متفق، وقد ذكر العلماء لهذه القاعدة صيغا كلية ونصوصا فقهية أسوقها كما يلي:

١ - «الغرم بالغنم»:نص على هذه الصيغة كل من: أبي سعيد الخادمي وأصحاب مجلة الأحكام العدلية

٢ - «من كان الشيء له كانت نفقته عليه»:نص على هذه الصيغة شيخ الإسلام ابن تيمية .

٣ - «من ملك الغنم كان عليه الغرم»:نص على هذه الصيغة يوسف بن عبد الهادي .

٤ - «النقمة بقدر النعمة»:نص على هذه الصيغة أصحاب مجلة الأحكام العدلية .

٥ - «كل مشترك نماؤه للشركاء ونفقته عليهم ونقصه عليهم»."

(  المبحث الأول: قاعدة: الخراج بالضمان وقاعدة: الغرم بالغنم،المطلب الأول: في صيغ القاعدة،ص:204/203،ط: دار كنوز إشبيلية للنشر والتوزيع،السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں