بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیٹے کانام دوسرے بیٹے کےلیے رکھنا


سوال

ایک بیٹا جو کہ فوت جائے اسکا نام دوسرے بیٹے کےلیے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بچے کی ولادت کے بعد والدین پر جوذمہ داریاں عائدہوتی ہیں ان میں سے ایک ذمہ داری بچے کےلیے اچھانام تجویزکرنابھی ہے ، اچھے نام کے اچھے اثرات ہوتےہیں ، حدیث شریف میں بھی اس کی تاکید آئی ہے۔اور کسی شخص کا نام اس کی پہچان(تعارف) کے لیے ہوتاہے،  اور دو بھائیوں کے لیے ایک نام رکھنااگرچہ  درست ہے، لیکن چوں کہ ایک جیسا نام رکھنا لوگوں کے لیے تشویش  اور  شناخت میں الجھن  کا باعث ہے، لہٰذا دونوں کے لیے الگ الگ نام رکھنا  زیادہ بہتر ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إنكم ‌تدعون ‌يوم القيامة باسمائكم وأسماء آبائكم، فاحسنوا أسماءكم."

(سنن أبي داود ، باب في تغيير الاسماء 7/ 303 ط:دار الرسالة العالمية )

ترجمہ:حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نقل كرتےہيں كہ حضورصلی اللہ عليہ وسلم نےفرماياكه قيامت كےدن تم كوتمہارےناموں سےاورتمہارے باپ كے ناموں سے پكاراجائےگا، پس تم اچھے نام رکھاکرو۔

"فتح الباري"میں ہے:

"قال الطبري لا تنبغي التسمية باسم قبيح المعنى ولا باسم يقتضي التزكية له ولا باسم معناه السب قلت الثالث أخص من الأول قال ولو كانت الأسماء إنما هي أعلام للأشخاص لا يقصد بها حقيقة الصفة لكن وجه الكراهة أن يسمع سامع بالاسم فيظن أنه صفة للمسمى."

(كتاب الآداب، كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سمع ... الخ، ج:10، ص: 577، ط:دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں