بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک آدمی ایک ہی وقت میں بائع اور مشتری نہیں بن سکتا


سوال

زید نے عمر سے کہا کہ میرے لیے لیموں کے یہ تین سو کریٹ آگے بیچ دو عمر نے100کریٹ 500 کے بیچے 100 کریٹ 600 کے  اور 100 کریٹ اپنے آپ کے لیے  450 کے حساب سے شمار کیے، کیا  اس کے لیے  اپنے آپ پر بیچنا  جائز ہے؟

جواب

واضح  رہےکہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے  کو وکیل بنائے کہ وہ موکل (وکیل بنانے والے)کی کوئی چیز آگے بیچ دے،تو ایسی صورت میں وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ وہ موکل کی چیز اپنے آپ پر بیچ دے۔

صورتِ  مسئولہ میں جب زید (موکل) نے عمر کو اس بات کا وکیل بنایا کہ وہ زید (موکل )کےلیموں کے  تین سوکریٹ آگے بیچ دےتو عمرکا بطوروکالت سو کریٹ آگے کسی اور کو 500 کا بیچنااورمزید سو کریٹ آگے 600کا بیچناشرعاً  یہ درست  ہے،لیکن مزید سوکریٹ کو اپنے آپ پر بیچنا جائز نہیں  ؛ اس لیے کہ   عمر پہلے زید کی طرف سے فروخت کنندہ بن رہا ہے،  پھربعد خود خریدنے والا ہواتو عمر کی ایک وقت میں دو حیثیتیں وجود میں آئیں، ایک حیثیت اس لحاظ سے کے عمر زید  کی طرف سے بائع  ( فروخت کنندہ ) بھی بن رہا ہے،  جب کہ خود اپنی طرف سے وہ مشتری ـ(خریدار ) بھی ہے اور شرعًا ایک شخص ایک ہی وقت میں بائع اور مشتری نہیں بن سکتا۔

رد المحتار میں ہے:

"االوكيل ‌بالبيع لا يملك شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا."

(کتاب الوکالة،فصل:لايعقد وكيل البيع والشراء،ج:5،ص:518،ط:سعيد) 

اس کی جائز صورت یہ ہے کہ زید خود  سو کرٹ عمر کو  فروخت کردے،اس طرح یہ معاملہ شریعت کی رو سے درست ہوجائے گا۔  

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402101401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں