بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی کے لیے جمع شدہ پیسوں سے نفع کمانا


سوال

کیا قربانی کے پیسوں سے نفع لینا جائز ہے؟ صورت مسئلہ یہ ہے کہ زید اور ابوبکر لوگوں کے حصے کی قربانی کرواتے ہیں،  اور  ایک حصہ کی رقم1300 روپے طے پائی ہے ، زید کا کام یہ ہے کہ وہ حصے لکھتا اور قربانی کرواتا ہے اور ابوبکر کا کام یہ ہے کہ وہ زید کو حصہ لکھواتا ہے ۔ اب کیا ابوبکر کے لیے اس رقم سے نفع  (مثلا 200 روپے) لینا جائز ہے؟

امید ہے جلد جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں گے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے  قربانی کاجانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد  زید اور ابوبکر کے پاس جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے،اور اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا   ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی اپنی خوش دلی  سے   مذکورہ رقم  ابوبکر   کو  دےدیں   تو ایسی صورت میں اس کے لیے یہ  رقم لینا درست ہے ۔

البتہ اگر  حصہ داروں کے سامنےپہلے سے ہی طے کرلیا جاۓ اور یہ واضح کردیا جاۓ کہ کل رقم میں سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے  ایک مخصوص رقم زید اور ابوبکر وصول کریں  گےتو ایسی صورت میں بھی  مخصوص مقدار میں طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي...ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(باب الغصب والعارية،الفصل الثاني،119,120/6،ط:مكتبه إمداديه،ملتان)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود،‌الباب السابع في حد القذف والتعزير،فصل في التعزير،167/2،ط:رشیدية)

درر الحکام میں ہے:

"‌إذا ‌قيدت ‌الوكالة بقيد فليس للوكيل مخالفته، فإن خالف لا يكون شراؤه نافذا في حق الموكل ويبقى المال الذي اشتراه له... مثلا لو قال: أحد: اشتر لي الدار الفلانية بعشرة آلاف واشتراها الوكيل بأزيد فلا يكون شراؤه نافذا في حق الموكل وتبقى الدار له."

(الكتاب الحادي عشر الوكالة،الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة،الفصل الثاني في بيان الوكالة بالشرا،المادة:585/3،1479،ط:دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں