بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارہ فاسدہ کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ہم پانچ بھائیوں اور ابو نے 1989ء میں مل کر کام کیا اور 1996 ء تک جو کمایا، وہ برابر تقسیم کیا ، پھر 1996ء سے لے کر 2001ء  تک میں ، میرے بڑے بھائی اور والد نے مل کر برابر کے حساب سے کام شروع کیا ، لیکن جو کمائی ہوئی وہ بڑۓ بھائی نے کمال ہوشیاری سے پچاس فیصد خود لیا ، چالیس فیصد والد کو دیا اور دس فیصد مجھے  دیا لیکن پھر بھی میں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا ۔

1۔2001ء میں میں نے والد صاحب کی ایک خالی دکان سنبھالی ، جس کے لیے سامان ِ تجارت وغیرہ میں نے اپنے پیسوں سے ڈالا ، کچھ قرض لیا جو بعد میں ادا کیا ۔اس وقت بڑے بھائی نے کہا تھا کہ :" اس دکان سےجو کماؤ گے وہ آپ کا اور ابو کا آدھا آدھا ہوگا، میں نے کہا ٹھیک ہے ، ابو نے بھی حامی بھر لی اور میں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے "پھر مئی 2020 ء میں والد کا انتقال ہوا ، اس پوری  مدت میں والد نے کوئی کام نہیں کیا ،  سب لین دین میں ہی کرتا تھا ، اسی دوران میں نے اس دکان کی کمائی  سے مزید دو عدد دکانیں اور ایک رہائشی گھر بنالیا ، جس میں میں نے اپنی بیوی کا دس تولہ زیور بھی استعمال کیا ہے،یہ گھر میں نے اس زمین پر بنایا جو میرے بڑے بھائی  نے خریدا تھا ، خریدنے کے پندرہ دن بعد انہوں نے مجھے کہا کہ :" آپ بھی میرے ساتھ شریک ہو جاؤ ، "تو میں اس کے ساتھ اس میں شریک ہو گیا ، اور آدھی قیمت میں نے بھائی کو دی ،  پھر مذکورہ زمین پر گھر بنایا گیا، اس کی تعمیر میں بھی ہم دونوں کے پیسے برابر تھے  اور بھائی نے کہا کہ : "جب گھر بن جائے گا تو آدھا گھر میں آپ کے نام کردوں گا " ، کیونکہ یہ زمین انہیں کے نام ہے ۔لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ گھر کی چالیس فیصد قیمت تمہیں دوں گا اور وہ بھی دو سالوں میں ۔

2۔والد کی وراثت کی تقسیم کا شرعی طریقہ معلوم کرنا ہے ،ورثا میں بیوہ  ،  پانچ بھائی اور  دو بہنیں ہیں ، مرحوم کے  والدین کا پہلے انتقال ہو چکا تھا۔

جواب

1۔صورت ِمسئولہ میں 2001 ء  میں سائل نے والد کی دوکان میں اپنی رقم سے کاروبار شروع کیا اور یہ طے پایا  تھا کہ آدھانفع سائل کا ہوگا اور  آدھا والد کا ہوگا،  یہ معاہدہ  نہ شرکت ہے  نہ مضاربت ،  ایسا معاہدہ کرنا شرعا جائز نہیں تھا ؛ لہذا مذکورہ دکان سے سائل نے جو کچھ کمایا  ہے وہ سائل ہی کا ہوگا  اور اس کمائی اور اس  سے بنائی گئی دیگر جائیداد   میں والد شریک  نہیں ہوں گے، البتہ جتنا عرصہ سائل نے یہ دوکان استعمال کی ہے ،  اتنی مدت کا مذکورہ دکان کا مارکیٹ ویلیو کے حساب سے کرایہ دینا سائل پر لازم ہے  ، پھر وہ کرایہ سائل سمیت والد کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔

جب سائل کے بڑے بھائی نے سائل کو مذکورہ زمین میں برابر کا شریک کیا تھا اور اس سے اس زمین کی قیمت وصول کی ہے اور پھر اس کی تعمیر پر جتنا خرچہ آیا ،  اس کا نصف حصہ بھی لیا ہے تو اب اس زمین اور عمارت میں دونوں بھائی  برابر کے شریک ہیں ؛ لہذا سائل کے بڑے بھائی پر اس کا نصف حصہ  سائل کو دینا لازم ہے ، چالیس  فیصد حصہ دے کر بقیہ دس فیصد حصہ سائل کی رضامندی کے بغیر  اپنے پاس رکھنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

سائل کے  والد مرحوم کےترکہ کی   تقسیم کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   سائل کے والد مرحوم کے ترکہ  میں سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے  کے بعد ، اگر مرحوم پر کوئی قرض   ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور   اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال  کے ایک تہائی              میں اسے نافذ کرنے کے بعد ،باقی متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  کے کل  98حصے کئے جائیں گے  ، جس میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12 حصے ،  ہر بیٹے   کو  14  حصے  اور ہر بیٹی کو 7 حصے ملیں  گے۔

صورت ِ تقسیم یہ ہے :

میت : (والد)   ، مسئلہ :8 / 96

بیوہ بیٹا بیٹابیٹابیٹا بیٹابیٹیبیٹی
17
12141414141477

یعنی سو روپے میں سے  مرحوم کی بیوہ کو12.50 روپے ، ہر بیٹے کو 14.5833روپے اور ہر بیٹی کو 7.291روپے ملیں گے ۔

الدر المختار وحاشيۃ ابن عابدين  میں ہے :

"باب الإجارة الفاسدة (الفاسد) من العقود (ما كان مشروعا بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعا أصلا) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل۔"

(باب الاجارة الفاسدة : 6 / 45 ، ط : سعید)

و فیہ ایضاً :

"(و) تفسد (بجهالة المسمى) كله أو بعضه كتسمية ثوب أو دابة أو مائة درهم على أن يرمها المستأجر لصيرورة المرمة من الأجرة فيصير الأجر مجهولا (و) تفسد (بعدم التسمية) أصلا أو بتسمية خمر أو خنزير (فإن فسدت بالأخيرين) بجهالة المسمى وعدم التسمية (وجب أجر المثل) يعني الوسط منه ولا ينقص عن المسمى لا بالتمكين بل (باستيفاء المنفعة) حقيقة كما مر (بالغا ما بلغ) لعدم ما يرجع إليه ولا ينقص عن المسمى۔"

(باب الاجارة الفاسدة : 6 / 48 ، ط : سعید)

و فیہ ایضاً:

"شركة ملك ، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق ؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ فتح وسيجيء متنا في الصلح۔

وأن من حيل اختصاصه بما أخذه أن يهبه المديون قدر حصته ويهبه رب الدين حصته وهبانية (بإرث أو بيع أو غيرهما) بأي سبب كان جبريا أو اختياريا ولو متعاقبا؛ كما لو اشترى شيئا ثم أشرك فيه آخر۔"

(کتاب الشرکۃ : 4 / 299 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"والربح في شركة الملك على قدر المال۔"

(مطلب فیما یبطل الشرکۃ : 4 / 316 ، ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر۔"

(کتاب المضاربۃ ، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها : 4 / 285 ، ط : رشیدیہ)

الدر المختار و حاشيۃ ابن عابدین میں ہے :

"(هي) لغة الخلط، سمي بها العقد لأنها سببه. وشرعا (عبارة عن عقد بين المتشاركين في الأصل والربح) جوهرة۔۔۔(وركنها في شركة العين اختلاطهما، وفي العقد اللفظ المفيد له)۔"

(کتاب الشرکۃ : 4 / 299 ، ط : سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں