ایک دکان دار اس طرح کاروبارکرتاہےکہ اس کےپاس کوئی گوشت پکانےمثلاًبروسٹ وغیرہ کے لیےلےکرآتاہے،اوردکان داراس گوشت کوتول کردیکھتاہے،اگرگوشت ایک کلویاایک کلوسے کم ہوتواس صورت میں دکان دار ایک کلوکےحساب سے پیسےوصول کرتاہے،اوراگردوکلویادوکلوسے کم ہوتواس صورت میں دوکلوکےحساب ہی سے پیسے وصول کرتاہے۔
نوٹ:۔بل کے پیچھے یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اگر گوشت ایک کلو سے کم ہو تو پیسے ایک کلو کے بقدر لیں گے، اور اگر ایک کلو سے زائد ہو تو پھر دو کلو کی قیمت لیں گے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان کا مذکورہ طریقے سے پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی جائز صورت ہے کیا ہوگی؟
واضح رہے کہ اگرکوئی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارےسے کوئی چیزبنواتاہے یااس سے کوئی کام لیتاہے توشریعت کی اصطلاح میں اس عقدکوعقداجارہ کہاجاتاہے،عقداجارہ کے درست ہونےکےلیے مختلف شرائط ہیں،ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اجیراورمستاجرباہمی رضامندی سے جوبھی قیمت متعین کرے،اوراس پروہ دونوں(اجیراورمستاجر) راضی بھی ہوں تواس صورت میں وہ عقد درست ہوگی،اوراگرکوئی قیمت متعین نہ کرےتوپھر بازاری قیمت یعنی اگرکوئی کسی کےلیے اُس طرح کوئی معاملہ کرتاہےتواسے جتنی قیمت ملےگی اتنی ہی اسے ملےگی۔
لہذاصورت مسئولہ میں جب دکان دارنےایک کلو تک کے گوشت کی بنوائی کے لیے ایک مخصوص قیمت متعین کی ہے،اسی طرح دو کلو تک کے گوشت کے لیے ایک مخصوص قیمت متعین کی ہےتوکم ہونےکی صورت مین زیادہ اجرت لیناجائزنہیں ہوگا،ہاں اگرکلوکےاعتبارسےاجرت مخصوص نہ کرے، ہر گوشت کی اجرت اندازہ سے الگ الگ مقررکرےتودرست ہے۔
درمختارمیں ہے:
"هي(الاجارة)تمليك نفع مقصود من العين بعوض."
(كتاب الاجارة، ج:4، ص:6، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة۔۔۔۔وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين."
(كتاب الإجارة وهو يشتمل على اثنين وثلاثين بابا، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:411، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100298
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن