میں ایک تندور کی دکان کرایہ پر لینا چاہتا ہوں، لیکن دکان کرایہ پر دینے والا (جوکہ خود مالک نہیں ہے) کہتا ہے کہ: کرایہ تو دکان کے مالک کو ملے گا، اس کرایہ کے علاوہ بھی آپ نے مجھے 30000 ماہانہ دینے ہیں، جس کو وہ ٹھیکہ کہہ رہا ہے اور وہ بندہ میرے ساتھ تندور کے کام میں شریک بھی نہیں ہے، کیا اس کا یہ پیسے لینا جو ماہانہ دکان کرایہ کے علاوہ ہیں، لینا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ شریعت میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاءِ کرام نے کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرتِ تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے؛ لہذا جس معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا جائز ہے، لیکن جہاں اپنا عمل اور محنت شامل نہ ہو وہاں کمیشن بھی جائز نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو آپ کو دکان کے مالک سے بات چیت کرکے دکان کرایہ پر دلا کردے گا تو اُس کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے، اس کے لیے آپ کو دکان کرایہ پر دلانے کا پہلے سے طے کرکے، ایک مرتبہ متعینہ کمیشن لینا جائز ہوگا، لیکن ہر مہینہ کمیشن یا ٹھیکہ کے نام پر 30000 روپے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 63):
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام ".
فقط وا للہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200044
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن