ایک دکاندار نے ایزی پیسہ سے دوسرے آدمی کے( 10000) روپے اس کے گاؤں بھیجے، اور سروِس چارجز کے طور پر الگ سو روپے بھی لیے، تو کیا یہ سو روپے سود میں آئیں گے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ کمپنی کی طرف سے دوکاندار کوکسٹمر سے مزید چارجز لینے پر پابندی ہوتی ہے اور باقاعدہ کسٹمر کے پاس مزید چارجز نہ دینے کا میسج بھی آتاہے، لہذا اس صورت میں کمپنی کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے کسٹمر سے اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم".
(مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص:63، ط:ايج سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144311101545
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن