بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ کمپنی کا جاری کردہ گیم کھیلنا


سوال

"ایزی پیسہ" اکاؤنٹ  میں ایک گیم ہے جسےايك روپے ميں کھیلا جاتا ہے،شرعاً وہ حلال ہے یا حرام ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ کی کمپنی کے  ايك روپیہ والے گيم ميں حصہ لینا "جوا"ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز ہے،کیونکہ ایزی پیسہ کے اس گیم میں مختلف صارفين ايك ايك روپیہ ادا کرتے ہیں،اور اس ایک روپے کی ادائیگی کی بنیاد پر وہ گیم میں شمولیت کرجاتے ہیں، بعد ازاں کمپنی ان صارفین کے درمیان قرعہ اندازی کرکے کسی ایک صارف کو موبائل وغیرہ فراہم کرتی ہے،جو کہ اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے"جوا" ہے،کیونکہ شرعاً "جوا" مال کو واپس ملنے نہ  ملنے کے خطرہ میں ڈالنے کو کہا جاتا ہے، پس ایزی پیسہ کے اس گیم میں لگایا گیا"ایک روپیہ"  ڈوب  جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے ،اور نہ ڈوبنے کا بھی امکان ہوتا ہے، کہ قرعہ اندازی میں ا س کا نام آجائے ، اور دوسرے بہت سے لوگوں کےلگائے ہوئے مال سے کمپنی اسے موبائل فون فراہم کردے۔

قرآن کریم میں جوے کی واضح ممانعت موجود ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [المائدة :۹٠]

ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔(بیان القران)

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر."

( کتاب البیوع  والاقضیة، ج:4، ص:483ط: مکتبہ رشد ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه."

      (احکام القرآن للجصاص باب تحریم المیسر، باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 ( کتاب الحظر والإباحة،  فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط :ايچ ايم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں