سوال یہ ہے کہ میں گاؤں کے ایک مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں بسا اوقات اہلیانِ علاقہ طلبہ کرام کے ذریعے قرآن خوانی یا ختم خوانی کی درخواست کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ معاوضہ کے طور پر نقدی کی صورت میں کچھ رقم یا کھانے کے اشیاء مثلاً مرغی وغیرہ بھی دیتے ہیں جسکی مختلف صورتیں بنتی ہیں جو کہ ذیل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کئے جاتے ہیں ۔
1 ۔ بسا اوقات کسی میت کے اہل خانہ طلبہ کو اپنے گھر لے جاتے ہیں وہاں پر طلبہ سے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کراتے ہیں اور بعد میں کھانا بھی کھلاتے ہیں جوکہ معاوضہ بالقرآن ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لیکن صورتِ مذکورہ میں علاقے کے علماء کرام یہ حیلہ بتاتے ہیں کہ ایسی صورت میں اہل خانہ سے چینی نمک وغیرہ منگوا لیا کریں اور اس پر سورت فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھ کر دم کر لیا کریں اور کھانا کھاتے وقت یہ نیت کرے کہ کھانا دم کے عوض کھارہے ہیں نہ کہ قرآن خوانی کے عوض۔
2۔ کبھی کبھار وہ دعوت عام ہوتی ہے لیکن ضمناً طلباء سے قرآن خوانی کرتے ہیں اور ان کو وہ کھانا کھلاتے ہیں لیکن طلباء کے لیے مختص نہیں ہوتا ہے کیا یہ صورت جائز ہے؟
3۔ بسا اوقات وہ کھانے کی چیز یا رقم مدرسے ہی میں لے آتے ہیں اور مدرسے ہی میں میت کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی کرنے کی فرمائش کرتے ہیں ۔ اس صورت میں علاقے کے علماء حیلہ یہ بتاتے ہیں کہ ایسی صورت میں کھانے کی چیز یا رقم صدقہ سمجھ کر کھا لیا کریں، اور قرآن خوانی دوسرے دن بغیر کسی معاوضے کے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کر لیا کریں، کیا یہ حیلہ جائز ہے؟
4۔ مذکورہ تینوں صورتوں میں اگر قرآن خوانی ایصالِ ثواب کے لیے نہ ہو، بلکہ کسی دوسری حاجت کی تکمیل کے لیے ہو یا بیمار کی صحت یابی کےلیے ہو یا کسی مشکل سے چھٹکارا پانے کے لیے ہو وغیرہ تو کیا ایسی صورت میں بھی کھانا کھانا یا رقم لینا نا جائز ہے؟ اور کیا مندرجہ بالا حیلے بھی جائز ہے؟
5۔ نیز ان تمام صورتوں میں اگر کھانا کھانا جائز ہو تو کیا صرف ختم خوانی والے طلبہ کھائیں گے یا ان کے علاوہ دیگر طلبہ اور اساتذہ بھی کھا سکتے ہیں؟
6۔ نیز مندرجہ بالا تمام صورتوں میں ختمِ خواجگان کا کیا حکم ہے؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں جب میت کے ایصالِ ثواب کے لیے طلبہ سے گھر میں قرآن خوانی کرکے اس کے عوض کھانا کھلانا نا جائز ہے تو اسی طرح اس کھانے کے جواز کے لیے مذکورہ حیلہ کرنا کہ میت کے گھر سے نمک یا چینی وغیرہ منگوا کر اس پر دم کرنے کے بعد اس گھر کے کھانا کھانا دم کے عوض سمجھ کر یہ بھی ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ گھر والوں نے تو کھانا ختم قرآن کے عوض ہی طلبہ کے لیے بنایا تھا، گھر والوں کی نمک یا چینی پر دم کرنے کی نہ ضرورت تھی اور نہ ہی اس دم کے عوض انہوں نے یہ کھانا تیار کیا تھا اور نہ ہی ابتداء میں گھر والوں کے ساتھ یہ معاملہ طے ہوا تھا کہ ہم آپ کے لیے چینی یا نمک پر دم کرتے ہیں جس کے بدلے آپ نے ہمیں اتنی رقم یا مخصوص کھانا کھلانا ہے جیسے کہ عام طور پر اجارہ کے اصول ہیں، بہر کیف مذکورہ صورت میں میت کے گھر سے کھانا کھانااور مذکورہ حیلہ کرنا نہ جائز ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔
2۔ اس صورت میں بھی چوں کہ طلبہ سے قرآن خوانی ایصالِ ثواب کے لیے کرواتے ہیں تو شبہ عوض ہونے کی وجہ سے طلبہ کے لیے یہ کھانا کھاناجائز نہیں ہے۔
3۔ جب لوگ قرآن خوانی ہی کے لیے مدرسہ میں رقم یا کھانا لے آتے ہیں تو اس کے بعد حیلہ کے طور پر علماء کا دوسرے یا تیسرے دن قرآن خوانی کرنا بھی عوض ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
4۔ اگر قرآن خوانی میت کے ایصالِ ثواب کے لیے نہ ہو، بلکہ دوسری جائز حاجت یا بیمار کی صحت یابی کے لیے یاکسی مشکل سے چھٹکارا پانے کے لیے ہو اور باقاعدہ تداعی (محفل نہ لگائی ہو) کی صورت میں نہ ہو توایسی صورت میں قرآن خوانی کے بعد کھانا کھانے میں شرعا گنجائش ہوگی، اور اگر یہ صورتیں نہ ہو تو جائز نہیں ہے، اور مذکورہ بالا حیلے جائز نہیں ہیں۔
5۔ مذکورہ بالا صورتوں میں اگر قرآن خوانی ایصالِ ثواب کے لیے ہو تو پھر اس کا کھانا نہ خود کھاسکتے ہیں اور نہ دوسروں کو کھلاسکتے ہیں، بلکہ صاحبِ گھر (قرآن خوانی کرانے والے) ہی کو واپس کردینا ضروری ہے، لیکن اگر واپس ہونے کی صورت نہیں ہوسکتی تو پھر خود نہیں کھاسکتے ہیں البتہ دوسرے (جو ختم قرآنی میں شامل نہ تھے)غریب طلبہ اور اساتذہ کو ثواب کی نیت کیے بغیر کھلاسکتے ہیں، اور اگر قرآن خوانی ایصالِ ثواب کے لیے نہ ہو بلکہ برکت یا دم وغیرہ کے لیے ہو تو پھر اس کا کھانا خود بھی کھاسکتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔
6۔ ختمِ خواجگان کا بھی وہی حکم ہے جو قرآن خوانی کا ہے، کہ اگر ایصالِ ثواب کے لیے ہو اور اس کے عوض کے طور پر کھانا کھلایا جائے تو جائز نہیں، اور اگر ایصالِ ثواب کے لیے نہ ہو، بلکہ کسی حاجت یا برکت یا علاج کے طور پر بغیر تداعی اور محفل کے کیا جائے تو جائز ہے اور اس کے بعد اگر کھانا بغیر شرط کے خوشی سے کوئی کھلائے تو کھانا کھانے میں بھی حرج نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص، والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."
(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، 2/ 240، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون اهـ."
(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار على المعاصي، 6/ 56، ط: سعید)
فیض الباری میں ہے:
"مسألة الأجرة على التعوذ، والرقية، وهي حلال لعدم كونها عبادة. قلت: ويتفرع على الأولى أن لا يصح أخذ الأجرة على قراءة القرآن للميت، لأن الأجير إذا لم يحرز ثواب القراءة، فكيف يعطيه للميت؟ نعم لو كان الختم لمطالب دنيوية، طاب له الأجرة، هكذا نقله الشامي، وشيده بنقول كثيرة من أهل المذهب."
(فيض الباري على صحيح البخاري، كتاب الإجارة، باب ما يعطى فى الرقية على أحياء العرب بفاتحة الكتاب، 3/ 515، ط: دار الكتب العلمية)
فيض القدير شرح الجامع الصغیر میں ہے:
"وإذا كان من أصر على مندوب ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان فكيف بمن أصر على بدعة فينبغي الأخذ بالرخصة الشرعية فإن الأخذ بالعزيمة في موضع الرخصة تنطع كمن ترك التيمم عند العجز عن استعمال الماء فيفضي به استعماله إلى حصول الضرر."
(حرف الھمزہ، 2/ 293، ط: المكتبة التجارية مصر)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے"
"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."
(کتاب الصلوۃ باب الدعاء فی التشھد، 3/ 31، ط: المكتبة التجارية)
تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"اعلم أن عامة كتب المذهب من متون وشروح متفقة على أن الاستيجار على الطاعات لا يصح عندنا. واستثنى المتأخرون من مشايخ بلخ تعليم القرآن، فجوزوا الاستيجار عليه، وعللوا ذلك بمامر، وبالضرورة وهي خوف ضياع القرآن؛ لأنه حيث انقطعت العطايا من بيت المال وعدم الحرص على الدفع بطريق الحسبة، يشتغل المعلمون بمعاشهم ولا يعلمون أحداً ويضيع القرآن، فأفتى المتأخرون بالجواز لذلك."
(تنقيح الفتاوى الحامدية: 2/ 137، كتاب الإجارة، مكتبه ميمنيه مصر)
الاعتصام للشاطبی میں ہے:
"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ،ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."
(الباب الأول فی تعریف البدع وبیان معناھا، 1 / 51، ط: دار ابن الجوزی)
فتاوی شامی میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه."
(حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب في رد المشتري فاسدا إلى بائعه، (5/ 99)، ط: سعيد)
معارف السنن میں ہے:
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."
(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، 1/ 34، ط: ایچ ایم سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"قرآنِ کریم پڑھ کر ثواب پہنچانا مفید ہے، ہز گز گناہ نہیں ۔۔۔ اور پڑھنے والوں کو کھانا کھلایا جائے یہ ثابت نہیں ، یہ کھانا پڑھنے اور ختم کرنے کی اجرت کے درجہ میں آتا ہے جو کہ شرعاً منع ہے۔ فتاوی بزایہ، ردالمحتار وغیرہ میں اس کو بدعت اور مکروہ لکھا ہے، اس کو اجرت کے تحت پڑھنے سے ثواب نہیں ہوتا، بلکہ گناہ ہوتا ہے۔"
(فتاوی محمودیہ،3/ 72 - 73، ط:ا دارۃ الفاروق، کراچی)
وفیہ ایضا:
ایصال ثواب وغیرہ کے ختم قرآن پر شیرینی
"الاستفتاء ٨١٤ : یہاں کا رواج ہے لوگ علماء، حفاظ اور کچھ علوم دین جاننے والے لوگوں سے ختم قرآن، ختم خواجگان یا اس کے علاوہ اور کسی قسم کا ختم کراتے ہیں اور ایصال ثواب یا اپنے مقاصد کی دعائیں کراتے ہیں، پڑھنے والوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور کچھ روپے پیسے بھی دیتے ہیں، یہ رواج شرعا کیسا ہے؟
روپے پیسے لینا دینا کیسا ہے؟
اہل استطاعت اس قسم کے پیسے لے سکتے ہیں یا نہیں؟
نیز کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلياً:
ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک ختم کرا کے بطور معاوضہ کھانا کھلانا درست نہیں، اس سے ثواب نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے، علامہ شامی نے اس کی تصریح کی ہے۔
اہل استطاعت اور فقراء کسی کو بھی ایسا کھانا کھلانا اور پیسے لینا درست نہیں، مگر دیگر مقاصد مثلا مقدمات کی کامیابی کے لیے اگر ختم کرایا جائے اور کھانا کھلایا جائے یا پیسے دیئے جائیں تو یہ درست ہے، یہاں ختم سے مقصود تحصیل ثواب نہیں بلکہ دوسرا کام مقصود ہے۔ واللہ سبحانہ تعالی اعلم"
(باب البدعات والرسوم، 3 /85، ط: ا دارۃ الفاروق، کراچی)
وفیہ ایضا:
سوال ۔۔۔ قرآن خوانی سے قبل رقم کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ، نہ اس کی تعداد مقرر ہے اور کوئی بھی اس لین دین کو قرآن خوانی کا عوض تصور نہیں کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس طرح قرآن خوانی کرنا اور اس طرح رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: ۔۔۔تلاوت حسبۃً للہ ہونی چاہیے، جو چیز مشہور و معروف ہو جاتی ہے اس کے لیے زبان سے ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا، المعروف کالمشروط ۔ قرآن کے اس طرح پڑھنے والے بھی اپنے ذہن میں رکھتے ہیں کہ ہم کو ملے گا، اور پڑھوانے والے بھی اپنے ذہن میں رکھتے ہیں کہ ہم کو دینا پڑے گا، چاہے وہ کھانا ہو، چاہے شربت ہو، مٹھائی ، نقد ، کپڑا وغیرہ کچھ ہو۔ جو لوگ اس کو سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ صلہ اور احسان کیا ہے، اس کی بھی تردید علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(فتاویٰ محمودیہ، باب الاستیجار علی الطاعات، 17/ 35، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ، کراچی)
وفیہ ایضا:
سوال [۸۱۷۹]: ۲. اور مسئلہ اول میں زید حیلہ کرتا ہے کہ میں جو یہ لیتا ہوں قرآن پڑھنے کے عوض میں نہیں لیتا ہوں ، بلکہ اپنا وقت چونکہ خرچ کیا اور ہمارے کام کا نقصان ہوا اس وجہ سے میں یہ روپیہ یا عوض
لیتا ہوں یہ حیلہ کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً:1 ۔۔۔ یہ لینا بھی نا جائز اور دینا بھی نا جائز ، لینے والا دینے والا ہر دو گناہ گار ہوں گے: قال تاج الشريعة في شرح الهداية : إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب، لا للميت ولا لـلـقــارى. وقال العيني في شرح الهداية : و يمنع القارى للدنيا والأخذ والمعطى اثمان."رد المحتار: ٣٩/٥"۔
جن مسائل میں فقہاء نے حیلہ کرنے کی اجازت دی ہے، یہ مسئلہ ان میں سے نہیں، نہ اس میں ضرورت ہے، جس کی بناء پر اجازت دی جائے ، علامہ شامی اس پر بحث کر کے تحریر فرماتے ہیں:
"مضى الدهر ولم يستأجر أحد على ذلك، لم يحصل به ضرر، بل الضرر صار في الاستيجار عليه حيث صار القرآن مكسباً وحرفةً يُتجربها، وصار القارى منهم لا يقرأ شيئاً لوجه الله تعالى خالصاً، بل لا يقرأ إلا للأجرة، وهو الرياء المحض الذي هو إرادة العمل لغير الله تعالى، فمن أين يحصل له الثواب الذى طلب المسأجر أن يهديه لميته؟ وقد قال الإمام قاضى خان: إن أخذ الأجر في مقابلة الذكر يمنع استحقاق الثواب."(عقود رسم المفتى)فقط واللہ سبحان اللہ تعالی اعلم
(فتاویٰ محمودیہ، باب الاستیجار علی الطاعات، 17/ 37، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102921
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن