ہمارے علاقے میں بعض لوگ میت کے پانچویں اور اکثر لوگ میت کے ساتویں دن جانور ذبح کرتے ہیں،اور یہ مالدار لوگ کرتے ہیں،اس میں شرکت کے لئے بہت سارے لوگوں کو گھر گھر آدمی بھیج کر دعوت دی جاتی ہےاور جمع ہونے کے بعد ایک مولوی صاحب دعا کرواتے ہیں،پھر جانور ذبح ہونے کے بعد پھر دعا ہوتی ہے،یہ دوسری دعا رخصتی کے لئے ہوتی ہے۔غریب لوگ چاول پکواتے ہیں ،کیا یہ طریقہ درست ہے؟
اس میں اکثر لوگ خود ظاہر کرتے ہیں کہ اگر خیرات نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گےاس کے بعد گوشت گھر گھر تقسیم ہوتا ہے،بعض ساتھی اس کے بعد عوام کے لئے یہ توجیہ کرتے ہیں کہ ابھی ان کے دل نرم ہیں؛لھذا صدقہ ہی کرنے دو۔
2۔سرمہ لگانے کا رواج بھی بہت بڑھ رہا ہے،اس کو لگانے کا کیا حکم ہے؟
3۔تعزیت کے موقع پر حضرت مفتی عبدالرؤف سکھری صاحب کا رسالہ "موت کے وقت کی بدعات"بیان کرنا اور لوگوں کو سنانااور اس پر عمل کرنا کیسا ہے؟
1۔میت کے لئے ایصالِ ثواب کرنا مستحب ہے،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ ، خاص دن و خاص وقت شریعتِ مطہرہ نے مقرر نہیں کیا ہے، پس جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے ،اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں،دعا کرلیں دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے لیکن ایصال ثواب کے لئے مخصوص دن کا التزام یا کیفیت کا مخصوص کرناشریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت ہے؛ کیوں کہ ثواب سمجھ کر اس کا اہتمام کیا جاتاہے۔
لہذا آپ نے اپنے علاقے کا جو رواج ذکر کیا ہے کہ انتقال کے ساتویں دن جمع ہوتے ہیں اور اس کے لئے گھر گھر دعوت دی جاتی ہے اور اجتماعی دعا ہوتی ہے اور جانور ذبح کرکے پھر دعا کرکے گھر گھر گوشت پہنچایا جاتا ہے اور اس کام کو باعث اجروثواب بھی سمجھا جاتا ہےیہ مروجہ طریقہ کار بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز و ممنوع ہے۔
الاعتصام للشاطبی میں ہے:
"ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."
(الباب الأول، ج:1، ص:53، ط؛دار ابن عفان،)
فتاوی شامی میں ہے:
"یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص".
(ردالمحتار على الدر المختار ، کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، کراچی ۲/۲۴۰)
2۔میت کو سنت طریقے کے مطابق عطر کا فور لگایا جائے۔ سرمہ نہ لگایا جائے، یہ زینت ہے اور انتقال کے بعد میت زینت سے بے نیاز ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بالوں میں کنگھی نہ کی جائے بال او رناخن نہ کاٹے جائیں ۔
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله: ولا يسرح شعره ولحيته، ولا يقص ظفره وشعره) ؛ لأنها للزينة، وقد استغنى عنها والظاهر أن هذا الصنيع لا يجوز قال في القنية أما التزين بعد موتها والامتشاط وقطع الشعر لا يجوز والطيب يجوز."
(كتاب الجنائز، باب غسل الميت، ج:2، ص:187، ط:دار الكتاب الإسلامي)
3۔تعزیت میت کے اہل خانہ کی تسلی اور غم خواری کے لئے ہے ؛اس لئے تعزیت میں اسی پہلو کو غالب رکھنا چاہیے باقی جو دینی مجالس اور بیانات ہوتے ہیں ان میں اس طرح کے موضوعات کا انتخاب کرکے لوگوں کی رہ نمائی کرنی چاہیے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101427
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن