بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی کی بیوی دارالحرب میں مسلمان ہوجائے تو تین حیض گزرنے کے بعد کسی مسلمان مرد سے شادی کرسکتی ہے۔


سوال

کیا ایک عیسائی عورت اسلام قبول کرنےکے بعد اپنے عیسائی شوہرسے طلاق لیے بغیر کسی مسلمان مردسے شادی کرسکتی ہے؟ کیوں کہ فلپائن میں طلاق ہونا ناممکن ہے، 30سال تک لوگ انتظارکرتے ہیں لیکن طلاق نہیں ہوتی،اس کا کوئی حل بتائیں۔

جواب

 واضح رہے کہ اگر کسی کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے تو اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر دونوں دارالاسلام  کے اندر ہوں تو ایسی صورت میں قاضی اس عورت کے شوہر پر اسلام پیش کرے گا ، اگر وہ اسلام قبول کرے تو دونوں کا نکاح برقرار رہے گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کرے تو قاضی ان کے درمیان تفریق کردے گا  ،اور اگر دارالکفر میں ہوں تو ایسی صورت میں عورت انتظارکرے تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے اگر شوہر اسلام قبول کرتاہے تو فبہا ورنہ تین ماہواریاں گزرنے سے نکاح ختم ہوجائےگا اور عورت کسی دوسری جگہ مسلمان مرد سے نکاح کرنے میں آزادہوگی ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  عیسائی عورت کا اسلام قبول کرنے کی صورت میں اپنے عیسائی شوہرسے طلاق لینا ضروری نہیں ہے،بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد تین  ماہواریاں (اگر حائضہ ہو اور اگر حائضہ نہ ہوتو تین مہینے)گزرنے کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فيها (وإلا) بأن أبى أو سكت (فرق بينهما۔۔۔(ولو) (أسلم أحدهما) أي أحد المجوسيين أو امرأة الكتابي (ثمة) أي في دار الحرب وملحق بها كالبحر الملح (لم تبن حتى تحيض ثلاثا) أو تمضي ثلاثة أشهر (قبل إسلام الآخر) إقامة لشرط الفرقة مقام السبب، وليست بعدة لدخول غير المدخول بها۔

(قوله ولو أسلم أحدهما ثمة) هذا مقابل قوله فيما مر وإذا أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي إلخ فإنه مفروض فيما إذا اجتمعا في دار الإسلام كما قدمناه. ولذا قال في البحر هنا: أطلق في إسلام أحدهما في دار الحرب فشمل ما إذا كان الآخر في دار الإسلام أو في دار الحرب أقام الآخر فيها أو خرج إلى دار الإسلام. فحاصله أنه ما لم يجتمعا في دار الإسلام فإنه لا يعرض الإسلام على المصر، سواء خرج المسلم أو الآخر لأنه لا يقضى لغائب ولا على غائب، وكذا في المحيط"

(کتاب النکاح ،باب نکاح الکافر:ج،3ص،191 ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: ولو أسلم أحدهما ثمة لم تبن حتى تحيض ثلاثا فإذا حاضت ثلاثا بانت) لأن الإسلام ليس سببا للفرقة، والعرض على الإسلام متعذر لقصور الولاية ولا بد من الفرقة دفعا للفساد"

(کتاب النکاح،باب نکاح الکافر ،ج:3ص:228،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

(سوال ۱۴۵۲)  ہندہ  نے مذہب عیسوی کو ترک کرکے  اسلام قبول کرلیا بکر اس کا شوہر ہنوز کافر مذہب عیسوی پر قائم ہے اور کہتا ہے کہ  میں اہل کتاب ہوں ‘ میرا نکاح  قائم ہے جب تک میں اس کو طلاق نہ دوں ‘ اور ہندہ کو خلع لینے کا بھی کوئی حق نہیں  ہے ؟  ہندہ مسلمان  سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں اور خلع لینے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟  اور اگر نکاح کرسکتی ہے تو کب تک کرسکتی ہے ؟

(الجواب)  بکر کا قول غلط ہے مرد کتابی کا نکاح عورت مسلمہ سے نہیں ہو سکتا اور نہ باقی رہ سکتا ہے‘ البتہ ہندہ بفور اسلام اس کے نکاح سے  علیحدہ نہیں ہوئی بلکہ تین حیض گزرنے پر یا حائضہ نہ ہو تو تین ماہ کے بعد  ہندہ  بکر سے بالکل جدا ہوجاوے گی ،اگر تین حیض یا تین ماہ کے اندر بکر شوہر اسلام لے آیا ،تو جدائی نہ ہوئی‘ بعد تین حیض وغیرہ کے ہندہ  دوسرا نکاح مسلمان سے کرسکتی ہے ۔ فقط

   (کتاب النکاح :ج ،8 ص،275 ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں