بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے پلاٹ پر زکات کا حکم جس میں تجارت یا رہائش کی نیت نہیں کی گئی ہو


سوال

میں  نے  چند سال قبل کارخانہ بنانے کی غرض سے ایک پلاٹ خریدا، کچھ سال تک اس کی  زکوٰۃ بھی اسی  لیے ادا نہیں کی،  پھر معلوم ہوا کہ یہاں کارخانہ لگانا ممکن نہیں؛ کیوں کہ آبادی قریب آ گئی ہے اور کل کو پریشانی بن سکتی ہے،  چنانچہ ہم نے وہاں کارخانہ لگانے کا ادارہ ملتوی کردیا ، اور میں نے اس کی مارکیٹ ویلیو کا اندازہ کر کے زکوٰۃ دینا شروع کردی اس طرح دو سال گزر گئے،  پھر ارادہ بنا کہ اس پر کوئی اور کام کر لیا جائے تو میں نے زکوٰۃ کے حساب سے اسے نکال دیا،  لیکن ابھی سال مکمل نہ ہوا تھا اور زکوٰۃ کے حساب کی تاریخ بھی نہ آئی تھی کہ ایک نئی جگہ خرید لی گئی اور اس نئی جگہ پر کارخانہ کی تعمیر بھی شروع کردی ہے الحمدللہ ، اب یہ پرانی جگہ پھر بچ گئی پوچھنا یہ ہے کہ اس پرانی جگہ کے سلسلے میں ابھی کچھ فیصلہ نہیں کر پایا ہوں کہ اسے رکھنا ہے یا بیچنا ہے تو اس صورت میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اس  پرانی جگہ پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين." 

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:262، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209200944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں