بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسی علیہ السلام کے ایک نوجوان کی بیوی کو زندہ کرنے کے واقعہ کی تحقیق


سوال

ایک روز حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ سَّلَام کا گزر ایک قبرستان سے ہوا ، تو وہاں ایک شخص ایک قبر کے پاس بیٹھا زار وقطار رو رہاتھا _ آ پ عَلَیْہِ السَّلَام نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا : یہ میری زوجہ کی قبر ہے، یہ میرے چچا کی بیٹی تھی، مجھے اس سے بہت زیادہ پیار تھا،  میں اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا _حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اگر چاہو تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تمہاری بیوی کو زندہ کر دوں ؟ اس نے بے قرار ہو کر کہا : ہاں !ایسا ضرور کر دیجیے ! چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے اٹھ جا ! قبر پھٹی اوراس میں سے ایک حبشی غلام باہر نکلا،  جس پر آگ کے شعلے بھڑک کے شعلے بھڑک رہے تھے _اس نے عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھ کربآوازِ بلند کہا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ عِیْسٰی رُوْحُ اللہ۔  اس کا یہ کہنا تھا کہ آگ بجھ گئی ، عذابِ الٰہی اس سے دور ہو گیا _ اس شخص نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ، میری بیوی کی قبر یہ نہیں، بلکہ دوسری ہے _ آپ عَلَیْہِ السَّلَام وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے اٹھ جا ! قبر پھٹی اور اس میں سے ایک حسین وجمیل عورت باہر نکل آئی_اس شخص نے دیکھتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : اے روح اللہ ! یہی میری بیوی ہے۔ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ان دونوں کو وہیں چھوڑکر آگے تشریف لے گئے ۔ وہ اپنی بیوی سے مل کر بہت خوش تھا _ کچھ دیر بعد اس پر نیند کا غلبہ ہوا تو وہیں سو گیا اس کی بیوی اس کے قریب ہی بیٹھی رہی،  اِتنے میں وہاں سے ایک شہزادے کا گزر ہوا ، شہزادے نے اس عورت کو دیکھا تو اسے پسند آگئی،عورت کو بھی شہزادہ پسند آگیا اور وہ اپنے شوہر کو سوتا چھوڑ کر شہزادے کے ساتھ چلی گئی _ جب اس مرد کی آنکھ کھلی تو اپنی بیوی کو نہ پا کر بہت پریشان ہوا ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہزادے کے محل تک پہنچ گیا ، وہاں اسے اپنی بیوی نظر آئی تو کہا :یہ میری بیوی ہے _شہزادے نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو ، یہ تو میری لونڈی ہے، یقین نہیں آتاتو اسی سے پوچھ لو! یہ سن کر اس بے وفاعورت نے فوراً کہا: ہاں ! میں شہزادے کی لونڈی ہوں ، میں تو تمہیں جانتی تک نہیں،  تم بے جا مجھ پر الزام لگا رہے ہو ۔ یہ سن کر وہ روتا ہوا محل سے واپس آگیا ، کچھ دنوں بعد حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے ملاقات ہوئی تو عرض کی:اے رُوحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام ! میری بیوی جسے آپ نے زندہ کیا تھا اب شہزدے کے پاس ہے ، شہزادہ اسے اپنی لونڈی بتاتا ہے اور وہ بھی یہی کہہ رہی کہ میں شہزادے کی لونڈی ہوں، تمہاری بیوی نہیں۔  آپ ہمارا فیصلہ فرما دیجیے۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس عورت سے فرمایا: کیا تو وہی نہیں ہے جسے میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے زندہ کیا تھا ؟عورت نے کہا: نہیں میں وہ نہیں ہو ں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فریا : اچھا تو ہماری دی ہوئی چیز ہمیں واپس کر دے ! اتنا فرمانا تھا کہ وہ جھوٹی وبے وفا عورت مردہ ہوکر زمین پر گر پڑی۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : جو شخص ایسے مرد کو دیکھنا چاہے جو کافر ہوکر مرا تھا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے زندہ کرکے ایمان کی دولت سے نوازا تو وہ اس حبشی غلام کودیکھ لے اور جو ایسی عورت کو دیکھنا چاہے جو ایمان کی حالت میں مری پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے زندہ کیا اور وہ کفر کی حالت میں مری تو وہ اس عورت کو دیکھ لے۔

اس واقعه كي تحقيق  مطلوب ہے۔ 

جواب

سوا ل میں مذكور  واقعه علامه ثعلبي رحمه الله (المتوفى: 427 ھـ ) نے اپنی کتاب’’قصص الأنبیاء المسمی بالعرائس‘‘میں درج ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے:  

"ومنها ما روي أن عيسى ـ عليه السلام ـ مرّ برجل جالس على قبر وكان يكثر المرور به فيجده جالسا عنده، فقال له: يا عبد الله، أراك تكثر القعود على هذا القبر. فقال: يا روح الله، امرأة كانت لي وكان من جمالها وموافقتها كيت وكيت ولى عندها وديعة. قال: أتحبّ أن أدعو الله تعالى فيحييها؟ قال نعم. فتوضّأ عيسى وصلّى ركعتين ودعا الله عز وجل فإذا أسود قد خرج من القبر كأنه جذع محترق. فقال له: ما أنت؟ قال: يا رسول الله أنا في عذاب منذ أربعمائة سنة، فلما كانت هذه الساعة قيل لي أجب فأجبت. ثم قال: يا رسول الله، قد مرّ عليّ من أليم العذاب ما إن ردّني الله إلى الدنيا أعطيته عهدا ألّا أعصيه، فادع الله لي، فرقّ له عيسى ودعا الله عز وجل ثم قال له: امض، فمضى. فقال صاحب القبر: يا رسول الله، لقد غلطت بالقبر، إنما قبرها هذا. فدعا عيسى عليه السلام، فخرج من ذلك القبر امرأة شابّة جميلة. فقال له عيسى: أتعرفها؟ قال: نعم هذه امرأتي، فدعا عيسى حتى ردّها الله عليه. فأخذ الرجل بيدها حتى انتهيا إلى شجرة فنام تحتها ووضع رأسه في حجر المرأة، فمرّ بهما ابن ملك فنظر إليها ونظرت إليه وأعجب كل واحد منهما بصاحبه، فأشار إليها فوضعت رأس زوجها على الشجرة واتّبعت ابن الملك. فاستيقظ زوجها ففقدها وطلبها فدلّ عليها، فأدركها وتعلّق بها وقال: امرأتي، وقال الفتى: جاريتي. فبينما هم كذلك إذ طلع عيسى فقال الرجل: هذا عيسى وقصّ عليه القصّة. فقال لها عيسى: ما تقولين؟ قالت: أنا جارية هذا ولا أعرف هذا. فقال لها عيسى: ردّى علينا ما أعطيناك. قالت: قد فعلت، فسقطت مكانها ميّتة. فقال عيسى: هل رأيتم رجلا أماته الله كافرا ثم بعثه فآمن! وهل رأيتم امرأة أماتها الله مؤمنة ثم أحياها فكفرت! "

(قصص الأنبياء المسمى بالعرائس للثعلبي، ذكر خصائص عيسى عليه السلام والمعجزات التي ظهرت على يديه، (ص: 434)، ط/ الطبعة الكاستيلية في أواخر المحرم 1282ه)

نیز اس قصہ کو علامہ شہاب الدین احمد نویری رحمہ اللہ (المتوفي: 733ھ)    نے بھی ’’ نهاية الأرب في فنون الأدب ‘‘  میں ’’قالوا ‘‘کے الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے ۔

(نهاية الأرب في فنون الأدب، (14/ 179 و180)، ط/ دار الكتب العلمية بيروت)

نيز شیخ  محمد بن نجیب القرہ حنفی رحمہاللہ  (المتوفي: 950ھ)  نے بھی اپنی کتاب ’’رونق التفاسیر من الموعظة المرغوبة ‘‘   میں علامہ ثعلبی رحمہ اللہ کی طرح نقل فرمایا ہے۔

(رونق التفاسیر من الموعظة المرغوبة، (ص: 106 و107)، ط/ دار الکتب العلمیة بيروت)

لیکن اس واقعہ کی کوئی سند ہمیں نہیں ملی، بظاہر یہ واقعہ اسرائیلیات کی قبیل سے ہے ، اورایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے، اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو متعینہ کتاب کے حوالے سے بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو  ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

 مذکورہ  واقعہ کے بعض حصہ یعنی ’’حضرت عیسي علیہ السلام نے خداتعالي کے حکم سے مردہ کوزندہ کیا‘‘ کی تصدیق تو ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہے، قرآن میں ہے:وَأُحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ (آل عمران: 49)، لہذا ہم بھی اس کی تصدیق کریں گے، لیکن اس کے علاوہ واقعہ کا بقیہ حصہ ایسا ہے کہ جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتی، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتا بھی نہیں ہے، اس لیے  اس کی ہم نہ تو  تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب، اور بیان کرنا ہے تو کتاب کا نام لے کر بیان کرسکتے ہیں، مثلاً فلاں کتاب میں یہ ہے۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں