بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علم غیب کی وضاحت


سوال

علم غیب مسئلے کی وضاحت اور اس کی تعریف

جواب

علم غیب اس علم کو کہا جاتاہے جوکسی واسطے کےبغیر، اور بنا کسی کے بتائے حاصل ہو، اور ایسا علم صرف اللہ رب العزت کا ہے، اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں  ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"علمِ غیب حضرت حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ آں حضرت ﷺ  کو حق تعالیٰ نے اس قدر مغیبات کا علم عطا فرمادیا تھا کہ ہم اس کا احصار نہیں کرسکتے۔ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ آں حضرت ﷺ کا علم حضرت حق تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ  ہے، مگر باوجود اس کے حضور  ﷺ عالم الغیب نہ  تھے؛ کیوں کہ علمِ غیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ بغیر واسطہ حواس اور بغیر کسی کے بتائے ہوئے حاصل ہو  اور حضور ﷺ کا تمام علم حضرت حق تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوا ہے۔ وہ حقیقتًا علمِ غیب ہے اور نہ حضور ﷺ کو عالم الغیب کہنا درست۔"

شرحِ عقائد صفحہ۱۰ پر ہے کہ مخلوق (انسان، فرشتہ اور جنات) کے حصولِ علم کے تین ذرائع ہیں:

(۱) حواسِ ظاہر۔ (۲) خبرِ صادق۔ (سچی خبریں) (۳)عقل۔

پہلی چیز کے ما تحت پانچ چیزیں ہیں:

(۱)قوتِ سامعہ (کان)۔  (۲)قوتِ شامہ (ناک)۔ (۳)قوتِ لامسہ (چھونے کے ذریعہ کسی چیز کا سخت، نرم، گرم یا سرد ہونا معلوم ہو)۔ (۴) قوتِ ذائقہ (زبان)۔ (۵)قوتِ باصرہ (آنکھ)۔

یہ حواس پورے بدن میں ہر شخص میں کم و بیش موجود ہیں، اِن اشیاءِ ثلاثہ کے ذریعہ علم حاصل ہوتا ہے، یہ سبب اور وسیلہ کے درجہ میں ہیں، علمِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے۔

جن باتوں تک حواس، عقل اور دلیل کی رسائی نہ ہو اور بلاواسطہ اُس کا علم حاصل ہو یہ علمِ غیب ہے۔ آنکھ سے کسی چیز کو دیکھ لیا، یا کان سے سن لیا، عقل کے ذریعہ کسی بات کے نتیجہ تک پہنچ گئے، یہ علمِ غیب نہیں ہے، وحی کے ذریعے فرشتے وغیرہ کے واسطے علم حاصل ہو یہ علمِ غیب نہیں ہے، تھرمامیٹر سے گرمی کا علم ہوا، یا مشین کے ذریعہ عورت کے پیٹ میں دیکھ لیا کہ لڑکا ہے یا لڑکی، یا ہوا کے دباؤ اور ٹھنڈک دیکھ کر بارش کی آمد کا پیشگی علم، علمِ غیب نہیں ہے۔

شرح العقائد میں ہے:

"و أسباب العلم للخلق ثلاثة: الحواسّ السلیمة، والخبر الصادق، والعقل.

فالحواس خمس: السمع و البصر و الشم و الذوق و اللمس."

(العقائد النسفیة مع شرحه للتفتازاني، عمر بن محمد بن أحمد بن إسماعيل، أبو حفص، نجم الدين النسفي (م:۵۳۷هـ)، ص:۱۰-۱۳، ط: یاسر ندیم- دیوبند)

النبراس میں ہے:

"والتحقیق أن الغیب ما غاب عن الحواس، والعلم الضروري ، والعلم الاستدلالی،  وقد نطق القرآن بنفي علمه عمن سواہ تعالیٰ ...  وأما ما علم بحاسة، أو ضرورۃ، أو دلیل، فلیس بغیب، ...  و بھٰذا التحقیق اندفع الإشکال في الأمور اللتي یزعم أنھا من الغیب، ولیست منھا،  لکونھا مدرکةً بالسمع أو البصر، أو الضرورۃ، أو الدلیل،  فأحدها أخبار الأنبیاء، لأنھا مستفاد من الوحي، و من خلق العلم الضروري فیھم، أو من انکشاف الکوائن علی حواسھم."

(النبراس، العلامة محمد عبد العزیز الفرهاري، ص:۳۴۳، ط: تھانوی- دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں