بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سگے بھائی، تین سگی بہنوں اور تین باپ شریک بھائیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میری نند کا انتقال ہوا ہے، ان کے ورثاء میں ایک سگا بھائی، تین سگی بہنیں اور تین سوتیلے (باپ شریک)بھائی ہیں، مرحومہ کے ترکہ میں تقریباً پینتالیس (45) لاکھ روپے ہیں، مرحومہ غیر شادی شدہ تھیں، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، والدین کا بھی مرحومہ سے پہلے انتقال ہوچکا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کا ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ: سب سےپہلے کل ترکہ سے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ (کفن دفن کے اخراجات) نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ وغیر منقولہ) کے کل 5 حصے کرکے 2 حصے مرحومہ کے سگے بھائی کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بہن کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:5

سگا بھائیسگی بہنسگی بہنسگی بہنسوتیلا بھائیسوتیلا بھائیسوتیلا بھائی
2111محروممحروممحروم

فی صد کے اعتبار سے کل ترکہ (رقم، ترکہ یا ترکہ کی مالیت) میں سے 40 فی صد سگے بھائی کو اور 20 فی صد ہر ایک بہن کو ملے گا۔

یعنی 45 لاکھ میں سے 1,800,000 (اٹھارہ لاکھ) روپے سگے بھائی کو اور 900,000 (نو لاکھ) روپے ہر ایک سگی بہن کو ملیں گے۔

حقیقی بھائیوں کی موجودگی میں باپ شریک بھائی مرحومہ کےترکہ میں شرعاً حصہ دار نہیں ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) بعد ترجيحهم بقرب الدرجة (يرجحون) عند التفاوت بأبوين وأب كما مر (بقوة القرابة فمن كان لأبوين) من العصبات ولو أنثى كالشقيقة مع البنت تقدم على الأخ لأب (مقدم على من كان لأب) لقوله صلى الله عليه وسلم إن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات . والحاصل: أنه عند الاستواء في الدرجة يقدم ذو القرابتين وعند التفاوت فيها يقدم الأعلى."

(كتاب الفرائض، فصل في العصبات، 6/ 775، ط:سعيد)

مفید الوارثین میں ہے:

”جب حقیقی بھائی موجود ہو تو علاتی بھائی اور علاتی بہنیں محروم رہیں گے۔“

(باب پنجم، عصبات کا بیان، عصبہ درجہ سوم نمبر ، حقیقی بھائی، 141، ط:ادارہ اسلامیات، لاہور)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144602102697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں