بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد کے قرآن کریم کے زائد نسخےاوردوسری زائد اشیاء کسی اور مسجد یامدرسہ کو بلا معاوضہ دینے کا حکم


سوال

میں بحیثیت  صدر انجمن ِمسجد سلیمانیہ بلاک 6،نرسری،پی ای سی ایچ ایس کراچی آپ سے چند سوالات پوچھنا چاہتاہوں :

1۔ہماری مسجد میں کافی  تعداد میں قرآن ِکریم کے نسخے اوردیگر اسلامی کتابیں موجود ہیں اوروہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں ،ہم چاہتے ہیں کی ان کو کسی مسجد یامدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے،شریعت  کے روسے اس کا کیا حکم ہے؟۔

2۔مسجد میں کافی تعدادمیں صفیں موجودہیں جو کہ زیرِاستعمال نہیں اورہم چاہتے ہیں کہ ان کو کسی مسجد یا مدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے،اس پر قرآن وسنت  کی روشنی میں جواب دیاجائے۔

3۔ مسجد میں کافی تعداد میں پنکھے ،اسپیکر مشین اوردوسری اشیاء موجود ہیں جو کہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں کہ ان اشیاء کو کسی مسجدیا مدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے ،شرعاً اس  کا کیا حکم ہے؟۔

جواب

اگر مسجد کے لیے وقف اشیاء فی الحال استعمال میں نہ ہوں، لیکن آئندہ استعمال کی امید ہو اور وہ اشیاء محفوظ رکھے جاسکتے ہوں تو انہیں آگے کسی اورمسجدیامدرسہ کونہ دیاجائے، بلکہ محفوظ رکھا جائے اور بوقتِ ضرورت اسی مسجد میں ہی استعمال کیا جائے،  البتہ اگر آئندہ استعمال کی امید نہ ہو، یا محفوظ کرنا ممکن نہ ہو، ضائع ہونے کا امکان ہو تو مسجد  کی ملکیت میں موجود زائد از ضرورت اشیاء کو کسی دوسری قریبی مسجد یامدرسہ  میں دیے جاسکتے ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًامذکورہ مسجد میں    قرآن پاک اوردیگر اسلامی کتابیں  کئی زائدنسخے ہیں کہ  وہ پڑھنے میں ہی نہ آتے ،کافی تعداد میں صفیں ہیں اورکئی زائد پنکھے اسپیکر مشین اوردوسری اشیاء موجودہیں جو کہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں  اور انہیں سنبھالنا بھی مشکل ہے  تو انتظامیہ باہمی مشورت سے انہیں کسی قریبی مسجد یا مدرسہ میں دینا جائز ہیں ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر مسجد میں چٹائیاں زائد موجود ہیں اور حفاظت کی کوئی صورت نہیں، خراب اور ضائع ہورہی ہیں تو زائد چٹائیاں ایسی مساجد میں بچھانا درست ہے جہاں ضرورت ہو، متولی اور دیگر اہل رائے حضرات کے مشورہ سے دے سکتے ہیں، بلا مشورہ نہ دیں؛ تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔"

(فتاوی محمودیہ 14 / 588 ط: فاروقیہ)

کفایت المفتی میں ہے:

’’زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد یا مدرسوں میں پڑھنے کے  لیے دے دیا جائے؛ کیوں کہ ان کے وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے‘‘۔ 

(کتاب الوقف، ج:7،  ص : 257) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه)."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:359،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403102264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں