بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہزار گھروں پر مشتمل گاؤں میں جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

 ہمارا گاؤں تقریباً ایک ہزار گھروں پر مشتمل ہے، یہاں بازار بھی ہے جہاں سےروز مرہ کے استعمال کی ضروری اشیاء بھی مل جاتی ہیں، یہاں سات مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں جمعہ پڑھایا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں،بلکہ  ایک محلے میں تین مسجدیں ہیں اور تینوں میں جمعہ پڑھا جاتا ہے، براہِ کرم یہ واضح فرمائیں کہ کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟اور کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ؟اور کیا ہر مسجد میں جمعہ ہوجائے گا؟ اگر نہیں۔ تو جو جمعہ کی نمازیں آج تک پڑھی گئیں، ان کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی  ڈھائی تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گاؤں جو ایک ہزار گھروں پر مشتمل ہےاور وہاں روزمرہ کی ضروریات بھی میسر ہیں تو اگر وہاں بسنے والوں کی تعداد تین یا چار ہزاریا اس سے زیادہ  ہے تو اس صورت میں مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے اور اس سے پہلے جو جمعہ کی نمازیں پڑھی گئیں وہ بھی درست ہیں۔

اور جس شہر یا بستی میں جمعہ پڑھنا جائز ہو تو اس میں متعدد جگہوں میں جمعہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے،البتہ جامع مسجد میں پڑھنا اولیٰ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة،138/2،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتؤدى الجمعة في مصر واحد في مواضع كثيرة وهو قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو الأصح وذكر الإمام السرخسي أنه الصحيح من مذهب أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ."

(كتاب الصلاة،الباب السادس عشر في صلاة الجمعة،145/1،ط: رشيدية)

            امداد الفتاوی میں ہے:

"اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں"۔ 

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الجمعۃ والعیدین ،488/1،ط:دارالعلوم)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نمازِ جمعہ  فرض ہے اورادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاقِ علمائے حنفیہ  جمعہ نہیں ہوتا ۔۔ اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ  سے اور کثرت و قلتِ آبادی سے معلوم ہوتا ہے ،جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا وہ قریہ کبیرہ بحکمِ قصبہ ہو سکتاہے اور اس سے کم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔"  

(کتاب الصلوۃ ،باب الجمعۃ ، 124/5،ط:دارالاشاعت)

وفيه أيضا:

 "سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے۔ پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ الجمعۃ، تین ہزار کی آبادی میں جمعہ، 107/5،ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں