بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دو تین تم مجھ سے خلاص ہو سے طلاق کا حکم


سوال

میاں بیوی سے کہے کہ" ایک دو تین تم مجھ سے خلاص ہو"، کیا مذکورہ جملے طلاق واقع ہوگی یا نہیں اگر ہوگی ہےتو کونسی اور کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر میاں نے طلاق کی نیت سے کہاکہ" تم مجھ سے خلاص ہو" تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائےگی اورباقی ایک، دو ، تین سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر میاں کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها أنت طالق ثلاثا طلقت ثلاثا، ولو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد."

(كتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،ج:3،ص:287،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق،الباب الثاني في ايقاع الطلاق،ج:1،ص:374،ط:رشيديه)

فتاوی مفتی محمود میں  ہے:

سوال:کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین دریں مسئلہ کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بحالت ناراضگی تین ڈھیلے اس کی طرف پھینک کر یہ الفاظ کہے کہ" ایک دو تین طلاق جاؤ تم خلاص ہو " اس میں ایک عالم نے یہ توجیہ کی ایک دو تین طلاق کے لفظ میں چوں کہ اضافت طلاق زوجہ کی طرف نہیں کی لہٰذا اس سے طلاق واقع نہیں اور جاؤ تم خلاص ہو مستقل جملہ ہے جس سے فقط ایک طلاق واقع ہوگی بعض کہتے ہیں کہ چوں کہ ڈھیلوں اس کی جانب پھینکنا دلالت قطعیہ ہے اضافت پر نیز خطاب بھی اس سے ہورہاہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ تین طلاق عورت مذکورہ پر ہی واقع کی ہیں، عوام الناس ایسے کلمات بول کر تین طلاق مراد لیتے ہیں اب پوچھنا یہ ہےکہ صورت مذکورہ میں عورت مغلظہ ہو چکی ہے یا کہ توجیہ مذکورہ کی وجہ سے ایک ہی طلاق سے مطلقہ ہوئی ہے۔"

جواب:صورت مسئولہ میں اضافت طلاق صاف اور بین طورپر موجود ہے جاؤ تم خلاص ہو کیا معنی رکھتاہے اسی طلاق کی تفسیر ہی تو ہے، یعنی اول عورت کی طرف ڈھیلے پھینک کر اس مطلب اور حاصل بیان کردیاکہ جاؤ تم خلاص ہو اب اور کیا اضافت چاہیے پس صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوگئی بیوی مغلظہ ہوگئی ۔"

(کتاب الطلاق،ج:6،ص:334،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں