بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایجاب وقبول کرتے وقت لڑکی کے سوتیلے باپ کانام لینے سے نکاح منعقد ہونے کاحکم


سوال

میرا نکاح 19 نومبر  کو ہوا ، نکاح کرتے وقت یعنی ایجاب وقبول کرتے وقت میری بیوی نے سوتیلےباپ کانام نکاح نامہ میں لکھوایاتھا اور ایجاب وقبول کرتے وقت بھی سوتیلے  باپ کے نام سے نکاح پڑھایا گیاتھا،جب کہ لڑکی  ایجاب وقبول کے وقت خود حاضر تھی  ،لیکن ایجاب وقبول لڑکی کی طرف سے وکیلوں نے کیا۔ اب دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ نکاح صحیح ہے یانہیں ؟ اگر نہیں تو دوبارہ نکاح کرنے کی کیاصورت ہے ؟ نیز اب جب کہ رخصتی بھی ہوئی ہے تو جو ہم ایک ساتھ رہے ہیں ،اس کا شرعاکوئی گناہ ہوگایانہیں اوراس کا  کفارہ کیا ہے ؟ واضح رہے کہ مجھے اس وقت معلوم نہیں تھا، ابھی شناختی کارڈ بنوانے جارہاتھا تو پتہ چلا۔

جواب

صورت ِمسئولہ میں جب نکاح نامہ میں لڑکی کے سوتیلے باپ کانام لکھاگیاتھا اور اسی طرح ایجاب وقبول کرتے وقت  بھی لڑکی کے سوتیلے باپ کانام لیاگیاتھا اور  ایجاب وقبول  کرتے وقت  لڑکی خود حاضر تھی،لیکن جب  ایجاب وقبول لڑکی کی طرف سے وکیلوں نے کیا اور غیر والد کو والد ظاہر کیا تو اس سے اس کی شخصیت مجہول ہوگئی ،اس لیے یہ  نکاح صحیح نہیں ہوا،سائل کا اس لڑکی کو بیوی بناکر اپنے ساتھ رکھنا ناجائز اور حرام ہے ،بلکہ دوبارہ شرعی گواہوں کی موجودگی میں حقیقی والد کا اظہار کرکے  نکاح کرنا ضروری ہوگااور جتناعرصہ سائل اوراس کی بیوی  آپس میں ساتھ رہے، اس پر دونوں صدق دل سے  خوب توبہ  واستغفار کریں ۔

الدرالمختار میں ہے:

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح؛"

(شامی،کتاب النکاح 3/26ط:سعید)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح."

( کتاب النکاح 3/26ط:سعید)

ردالمحتار میں ہے:

"قلت: وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود."

(کتاب النکاح 3/15ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں