شادی کے وقت میرے شوہر ایک نہایت خستہ حال مکان میں رہتے تھے، جسے ہم دونوں نے دن رات محنت کر کے رہنے کے قابل بنایا، ہمارے کل تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، گزشتہ کم وبیش نو ماہ قبل میرے شوہر نے مجھے یکمشت تین طلاقیں دیں، میں نے اسی مکان کے اوپر والے حصے میں اپنے بیٹوں کے ساتھ رہ کر عدت پوری کی، اب مجھے میرے سابقہ شوہر مجھے گھر چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔
1:سوال یہ ہے کہ ، میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے، میں کس کے سہارے کہاں جاؤں؟
2:مجھے میرے سابقہ شوہر نے طلاق کے بعد سے نہ صرف عدت کے دوران بلکہ تا حال کسی قسم کا کوئی نان نفقہ یا عمر بھی کی محنت وخدمات کا کوئی صلہ نہیں دیا؟
3:کیا طلاق کے بعد ہمارے مشترکہ مکان میں میرا کوئی حصہ ہے؟
4:میرے غیر شادی شدہ بچوں کی شادی اب کس کے ذمہ ہے؟
5:میرے شوہر اپنی حیات میں بچوں کو میراث یا اس کا کچھ حصہ ہبہ کرنا چاہتے ہیں وہ کس طرح کریں؟
1: صورتِ مسئولہ میں اگرسائلہ کے پاس شریعت کی حدود کے اندر رہ کر کمائی کا کوئی جائز ذریعہ ہو تو وہ اپنا خرچ خود اٹھائے ، اگر نان ونقفہ اوررہائش کاکوئی انتظام نہ ہو،تو اس کا خرچہ شرعاً اس کے بالغ بیٹوں پر برابر سرابر عائد ہوگا، اور اگر اُن میں سے کوئی ایک غریب ہو،تو پھر پوراخرچہ دوسرے بیٹے پرلازم ہے۔
2:واضح رہے کہ بیوی کاگزشتہ مدت(عدت) کا نفقہ صرف دو صورتوں میں لے سکتی ہے:
(الف) قاضی (عدالت ) نے خرچہ طے کیا ہو۔
(ب) فریقین نے باہمی رضامندی سے کسی مقدار کا تعین کرلیا ہو۔
لہذا جب سائلہ کواس کے شوہر نے عدت کا خرچہ نہیں دیا اور نفقہ کے تعین میں مذکورہ بالا دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت بھی پائی جاتی ہو تو مطلقہ بیوی گزشتہ مدت کے نفقہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کا ادا کرنا سائلہ کے شوہر پر لازم ہوگا اور اگر ان دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی جاتی تو گزشتہ مدت کے نان نفقہ کا مطالبہ اب سائلہ نہیں کر سکتی۔
3: نیزاگر سائلہ نے یہ رقم بغیر کسی صراحت کے لگا ئی گئی تھی تو اب انہیں کسی قسم کے مطالبہ کا حق نہیں ہے اور اگر رقم لگاتے ہوئے کسی قسم کی صراحت ہوئی تھی کہ یہ قرض ہے یا بطور شراکت ہے تو اسی کے مطابق عمل کیا جائےگا ۔
4:بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والدین کے ذمہ نہیں رہتا، چنانچہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا، اور اگر شادی کی فضول و غیر ضروری رسموں اور فضول خرچی سے بچاجائے تو شادی کا خرچہ اتنا زیادہ اور مشکل نہیں ہے جتنا آج کل سمجھ لیا گیا ہے، اس لیے اگر والدین کی استطاعت ہو تو ان کو بطورِ تبرع یہ خرچہ اٹھانا چاہیے، یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا، لیکن اگر والدین کسی وجہ سے بیٹے کی شادی کا خرچہ نہ اٹھاسکیں تو بیٹے کے گناہ میں مبتلا ہونے کا وبال ان پر نہیں ہوگا، بیٹا خود کوشش کر کے حلال مال کمانے کی کوشش کرے؛ تاکہ شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ اٹھاسکے، اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوسکے تو گناہ سے بچنے کے لیے حدیث میں روزہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
البتہ بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے، اس وقت تک اس کے تمام اخراجات والد کی حیثیت کےمطابق اس پر واجب ہوتے ہیں، جس میں بیٹی کی شادی کی ذمہ داری بھی داخل ہے۔
5:واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے، نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں حق و حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتا، تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے :کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بنا پر دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دےسکتا ہے، یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض.
(قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب لا تصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا، ج:3، ص:594، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والأم إذا كانت فقيرة فإنه يلزم الإبن نفقتها، وإن كان معسرا، أو هي غير زمنة، وإذا كان الأبن يقدر على نفقة أحد أبويه، ولا يقدر عليهما جميعا فالأم أحق."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:565، ط:رشيدية)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال - رحمه الله - (ولا يشارك الأب والولد في نفقة ولده وأبويه أحد) أما الأبوان فإن لهما تأويلا في مال الولد لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أنت ومالك لأبيك»، ولا تأويل لهما في مال غيره، ولأنه أقرب الناس إليهما فصار أولى بإيجاب النفقة."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:64 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
فتاوى هنديہ میں ہے:
" المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها، وإن كانت بمعنى من جهة غيرها فلها النفقة فللملاعنة النفقة والسكنى والمبانة بالخلع والإيلاء وردة الزوج ومجامعة الزوج أمها تستحق النفقة، وكذا امرأة العنين إذا اختارت الفرقة، وكذا أم الولد والمدبر إذا أعتقا، وهما عند زوجيهما، وقد بوأهما المولى بيتا واختارتا الفرقة، وكذا الصغيرة إذا أدركت اختارت نفسها، وكذا الفرقة لعدم الكفاءة بعد الدخول كذا في الخلاصة."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة، ج:1، ص:577، ط:رشيدية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.
و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:562، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم ."
( کتاب الوقف، ج:4، ص:444، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100246
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن