بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیدگاہ میں تکرارجماعت کاحکم


سوال

ہمارے شہر اسلام پور میں بڑھتی آبادی  کی وجہ سے عیدگاہ ناکافی ہورہی ہے،پہلے عیدگاہ پر ایک جماعت ہوتی تھی،اور جو لوگ معذور ہیں بوڑھے اور ضعیف ہیں جو عیدگاہ پر نہیں جا سکتے تھے ان کے لیے دوسری جماعت جامع مسجد میں ہوا کرتی تھی۔اب صورت یہ ہے اکثر لوگ عیدگاہ آکر جگہ کی تنگی کی وجہ سے واپس جاتے ہیں اور مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، مسجد بھی کافی بڑی اور تین منزلہ ہے اس کے باوجود مسجد میں دو سے تین جماعتیں ہوتی ہیں جو لوگ عیدگاہ سے واپس جگہ نا ملنے کی وجہ سے لوٹتے ہیں وہ دوسری جماعت میں بھی اکثر شامل نہیں ہو پاتے؛ کیوں کہ مسجد پہلے سے نمازیوں  سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔

اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جو لوگ عیدگاہ جاتے ہیں اور جگہ کی تنگی کی وجہ سےعیدگاہ پر جماعت میں شامل نہیں ہو پاتے تو کیا وہ لوگ وہیں رک کر عیدگاہ پر امام کا مصلی تبدیل کر دوسری جماعت وہیں عیدگاہ پر کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ وہ لوگ یہاں مسجد میں آکر دو سے تین جماعتیں بناتے ہیں، جب مسجد میں دو سے تین جماعتیں ہو رہی ہیں تو عیدگاہ پر بھی ہم دوسری جماعت بنا سکتے ہیں یا نہیں؟یا جامع مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں عید کی تیسری جماعت بنا لی جائے ؟

(واضح رہے کہ سب ہی لوگوں کی خواہش عیدگاہ پر نماز ادا کرنے کی ہوتی ہے۔)

جواب

واضح رہے کہ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھناسنت ہے،اگرعذرہو(بارش وغیرہ ) تو بڑی جامع مسجد میں عیدکی نمازاداکرنے کااہتمام کرناچاہیے،اورایک دفع جس عیدگاہ اورجامع مسجدمیں عیدنمازاداکرلی جائے اسی مقام پر دوسری جماعت کرنامکروہ ہے۔

صورت مسئولہ میں اگرکسی کی ایک جماعت نکل جائے تو شہر میں دوسری جگہ جہاں عیداداکی جارہی ہو  وہاں شرکت کرلی جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(قوله: ولم تقض إن فاتت مع الإمام) ؛ لأن الصلاة بهذه الصفة لم تعرف قربة إلا بشرائط لا تتم بالمنفرد فمراده نفي صلاتها وحده وإلا فإذا فاتت مع إمام وأمكنه أن يذهب إلى إمام آخر فإنه يذهب إليه؛ لأنه يجوز تعدادها في مصر واحد في موضعين وأكثر اتفاقا."

( كتاب الصلاة، بَابُ الْعِيدَيْنِ،ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۷۵، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں