بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید گاہ کی زمین میں واقف کی اجازت سے قریبی مدرسہ کے لیے گھر بنانا


سوال

ہمارے ہاں ایک عیدگاہ ہے،  جہاں عید کی نماز  ادا کی  جاتی ہے،  اور اس عیدگاہ کے پاس ایک  مدرسہ ہے،  اب مدرسہ کےلیے گھر بنانے کی ضرورت پڑی ہے،   اگر عیدگاہ کے واقف یا منتظمین اجازت  دے دیں،  تو  کیا عیدگاہ کے  ایک طرف مدرسہ کے لیے  گھر بنانا جائز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر کوئی زمین مدرسہ یا مسجد یا عید گاہ کے  لیے وقف کردی گئی، اور متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کردی گئی، تو یہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں، ہاں اگر واقف نے وقف کرتے ہوئے ضرورت کے وقت وقف کی جہت تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو اب وہ جہتِ وقف میں تبدیلی کرسکتا ہے ورنہ نہیں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقف نے وقف کرتے وقت تبدیلی کی شرط لگائی تھی تو واقف کے لیے عید گاہ کی زمین کو مدرسہ کے گھر کے لیے دینا اور اس پر گھر بنانا جائز ہوگا، اور یہ گھر مدرسہ کی ملک ہوگا،مدرسہ کے کسی مدرس یا  مہتمم کا ذاتی گھر  شمار نہیں ہوگا،  اور اگر عید گاہ کے واقف نے وقف کرتے وقت جہتِ وقف کی تبدیلی کی شرط نہیں لگائی تو اب عید گاہ کی زمین پر مدرسہ کے لیے گھر بنانا جائز نہ ہوگا، اگر چہ واقف  اور منتظمین اس کی اجازت دے دیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز. وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث، إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها، ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال قال: ولا يمكن قياسها على الأرض فإن الأرض إذا ضعفت لا يرغب غالبا في استئجارها بل في شرائها أما الدار فيرغب في استئجارها مدة طويلة لأجل تعميرها للسكنى على أن باب القياس مسدود في زماننا وإنما للعلماء النقل من الكتب المعتمدة كما صرحوا به."

(کتاب الوقف، مطلب فی استبدال الوقف و شروطه، ج:4 ص: 384،385، ط: دارالفکر)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے۔ 

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه.

وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف ،الفصل الثالث حکم الوقف ج:10، ص: 7617، ط:دار الفکر)

خیر الفتاویٰ میں ہے:

’’الجواب :عیدگاہ کی موقوفہ زمین میں مدرسہ کی تعمیر جائز نہیں ، کیوں کہ بتصریحِ فقہاء کرام موقوفہ زمین کو اس جہت پر صرف کرنا لازم ہے، جہاں اُسے وقف کیا گیا ہو، اور موقوفہ زمین کو نہ ہی بیچا او ر نہ اس کے بدلے میں اور زمین لینا جائز ہے۔‘‘

(احکام المصلی العید والجنازہ، ج: ۶،ص:۵۶۵،ط:مکتبہ امدادیہ)

فقط و اللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144406101381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں