بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیدگاہ کی موجودگی میں بلا عذر عیدکی نماز مسجد میں پڑھنا کیسا ہے؟


سوال

عیدگاہ کی موجودگی میں بلا عذر عیدکی  نماز مسجد میں پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

عید گاہ کی موجود گی میں بلا عذر مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے کی صورت میں  سنت کا ترک کرنا لازم آۓ گا ، البتہ عید کی نماز صحیح ہو جائے گی، لیکن اگر کسی جگہ عذر کی وجہ سے عید کی نماز مسجد میں ادا کی جارہی ہےتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"وإن كانت صلاة العيد واجبة حتى لو صلى ‌العيد ‌في ‌الجامع، ولم يتوجه إلى المصلى فقد ترك السنة."

(كتاب الصلوة،باب العيدين،الخروج إلى الجبانة يوم العيد،171/2،ط:دار الكتاب الإسلامي)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں  ہے"

"(‌والخروج ‌إليها) ‌أي ‌الجبانة ‌لصلاة ‌العيد (سنة وإن وسعهم المسجد الجامع) هو الصحيح."

(كتاب الصلوة،باب العيدين169/2،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الخروج ‌إلى ‌الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات."

(كتاب الصلوة،الباب السابع عشر في صلاة العيدين150/1،ط:سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"لأن المسنون في العيد ‌الخروج ‌إلى ‌الجبانة....... لأن أداء الصلاة في المسجد أفضل منه بالجبانة ."

(كتاب الذبائح،أول وقت الأضحية،11/12،ط: دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں