بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید گاہ کی جگہ مدرسہ تعمیر کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی زمین عیدگاہ کے لیے  وقف کردی گئی، لیکن کچھ مدت کے بعد مصلیوں کے لیے جگہ تنگ ہو گئی تو لوگ مشورہ سے اس جگہ مدرسہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو اس زمین کو کس کام میں لگا سکتے ہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر کوئی  شخص اپنی زمین مدرسہ یا مسجد یا عید گاہ کے  لیے وقف کردے تو وہ زمین  واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی  جاتی ہے، وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں، ہاں اگر واقف نے وقف کرتے ہوئے ضرورت کے وقت وقف کی جہت تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو اب وہ جہتِ وقف میں تبدیلی کرسکتا ہے، ورنہ نہیں ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں عید گاہ کے لیے  وقف زمین  میں مدرسہ تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ،اگر چہ منتظمین اس جگہ   مدرسہ  تعمیر کرنے کی اجازت دے دیں ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے۔ 

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه، وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف،ج:10،ص:7617،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں