بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت گزرجانے کے بعد طلاق دینے کا حکم


سوال

 ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاقِ بائن دی ہے اور اس کے بعد اس کی عدت بھی گزر گئی ہے ،اب بیوی کے گھر والے اس مذکورہ شخص سےیہ کہہ رہے ہیں کہ اب تم اس کو بقایا دو طلاقیں بھی طلاقِ بائن کرکے دے دو، تو اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اب اس بیوی کو طلاق دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اورکیا بیوی کے گھر والو ں کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص کی بیوی کی عدت گزر چکی ہے تو اب عدت کے بعد طلاق دینے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور بیوی کے گھر والوں کا یہ مطالبہ کرنا کہ اب اس کو مزید دو بائن طلاقیں بھی دے دو ،درست نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول وهو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء لأنه اقتضاء ضروري حتى لو قال عنيت به البينونة الغليظة ينبغي أن يعتبر وتثبت به الحرمة الغليظة إلا إذا كان البائن معلقا بأن قال إن دخلت الدار فأنت بائن ثم قال أنت بائن ثم دخلت الدار وهي في العدة تطلق كذا في العيني شرح الكنز."

(كتاب الطلاق،الباب الثاني ،الفصل الخامس في الكنايات،377/1،ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فصل) وأما الذي يرجع إلى المرأة فمنها الملك أو علقة من علائقه؛ فلا يصح الطلاق إلا في الملك أو في علقة من علائق الملك وهي عدة الطلاق أو مضافا إلى الملك.وجملة الكلام فيه أن الطلاق لا يخلو: إما أن يكون تنجيزا، وإما أن يكون تعليقا بشرط، وإما أن يكون إضافة إلى وقت أما التنجيز في غير الملك والعدة فباطل ."

(كتاب الطلاق،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلي المرأة،126/3،ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں