بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید الاضحی مبارک کہنے اورلکھنے کا حکم


سوال

ایک دوسرے کو عید الاضحٰی کی مبارکبادی دینا، عید الاضحی مبارک اسٹیٹس لگانا کیسا ہے؟

جواب

صحیح اور معتبر روایات میں منقول ہے کہ عیدکے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو یہ دعا دیتے تھے کہ"تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ"یعنی اللہ تمہارے اور ہمارے( نیک اعمال) قبول فرمائے ۔

البتہ اگر "تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ"کے بجائے ’’ عید مبارک‘‘ کہا جائے ، یا اس کے علاوہ مبارک بادی کے  لیعرف وعادت کے مطابق کوئی اور جملہ جس میں مبارک بادی اور اظہار محبت والفت کا مفہوم ہواسے اس موقع پر ایک دوسرے سے کہا جائے تو یہ بھی درست ہے ۔علامہ طحطاوی ؒ اور علامہ شامیؒ  فرماتے ہیں کہ شام اور مصر کے علاقوں میں ’’ عید مبارک ‘‘ کہنے کا رواج ہے ، یہ بھی مشروعیت و استحباب میں " تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ" کے حکم میں ہے ؛اس ليے كه عید کی مبارک باد دینا عید کے دن کے  بابرکت ہونے کی دعا دینا ہے،تو جس طرح اعمال صالحہ کی  قبولیت کی دعا دینا جائز  اور مستحب ہے، اسی طرح جس دن اعمال قبول ہوں اس دن کی آمد پر بھی برکت کی دعا دینا جائز  اور مستحب ہے،  لہذا عید کے موقع  پر (خواہ عید الفطر ہو یا عید الاضحی )ایک دوسرے کو عید مبارک ،عید الفطر مبارک اور عید الاضحی مبارک کہنا یا لکھنا جائز، بلکہ مستحب ہے،  لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا، اور نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا شرعًا درست نہیں ہے۔

"فتح الباري لابن حجر  العسقلاني" میں ہے:

"وقد روى بن عدي من حديث واثلة أنه لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عيد فقال تقبل الله منا ومنك فقال نعم تقبل الله منا ومنك وفي إسناده محمد بن إبراهيم الشامي وهو ضعيف وقد تفرد به مرفوعا وخولف فيه فروى البيهقي من حديث عبادة بن الصامت أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك فقال ذلك فعل أهل الكتابين وإسناده ضعيف أيضا وكأنه أراد أنه لم يصح فيه شيء وروينا في المحامليات بإسناد حسن عن جبير بن نفير قال كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض تقبل الله منا ومنك."

(باب سنة العيدين لأهل الاسلام، ج:2، ص446، ط: دار المعرفة بيروت)

"رد المحتار على الدر المختار"  میں ہے:

"وندب كونه من طريق آخر وإظهار البشاشة وإكثار الصدقة والتختم والتهنئة بتقبل الله منا ومنكم لا تنكر

(قوله : لاتنكر ) خبر قوله: "والتهنئة"، وإنما قال كذلك؛ لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية: أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة، وعن مالك: أنه كرهها، وعن الأوزاعي: أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أنها جائزة مستحبة في الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك، ثم قال: والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية "عيد مبارك عليك" ونحوه، وقال: يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب؛ لما بينهما من التلازم، فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان عليه مباركاً، على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شتى؛ فيؤخذ منه استحباب الدعاء بها هنا أيضاً..اهـ".

(كتاب الصلاة، باب العيدين، ج:2، ص: 169، ط: سعيد)

"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح "میں ہے:

"والتهنئة بقوله تقبل الله منا ومنكم لا تنكر بل مستحبة لورود الأثر بها كما رواه الحافظ ابن حجر عن تحفة عيدالأضحى لأبي القاسم المستملي بسند حسن وكان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض تقبل الله منا ومنكم قال وأخرجه الطبراني أيضا في الدعاء بسند قوي اهـ قال والمتعامل به في البلاد الشامية والمصرية قول الرجل لصاحبه عيد مبارك عليك ونحوه ويمكن أن يلحق هذا اللفظ بذلك في الجواز الحسن واستحبابه لما بينهما من التلازم اهـ.."

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں