بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید سے پہلے عید کی مبارک باد دینا


سوال

عید کی چاند رات سے پہلے عید کی مبارک باد پیش کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

عید کی مبارک باد دینا اس کے بابرکت ہونے کی دعا دینا ہے،  عید کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا جائز، بلکہ مستحب عمل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو یہ دعا دیتے تھے کہ «تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ صَالِحَ الْأَعْمَالِ»،(اللہ تمہارے اور ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے )۔

علامہ شامی رحمہ اللہ نے محقق ابن امیر حاج سے نقل کیا ہے کہ ہمارے شام میں لوگ ایک دوسرے کو  ”عید مبارک “ کہتے ہیں، تو اس کو بھی اس دعا کے عموم  میں شامل کیا جاسکتا ہے، اس لیے جس شخص کے اعمال قبول ہوگئے تو وہ زمانہ اس کے لیے بابرکت ہوگیا، اس لیے برکت کی دعا دینا جائز ہے، اور چوں کہ ایسا کرنا  لازم یا واجب نہیں، اور ایک دعا ہے،  اس لیے عید سے پہلے پیشگی یہ مبارک دینا منع نہیں  ہوگا،  لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا، اور نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا شرعًا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله : لاتنكر ) خبر قوله: "والتهنئة"، وإنما قال كذلك؛ لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية: أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة، وعن مالك: أنه كرهها، وعن الأوزاعي: أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أنها جائزة مستحبة في الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك، ثم قال: والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية "عيد مبارك عليك" ونحوه، وقال: يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب؛ لما بينهما من التلازم، فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان عليه مباركاً، على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شتى؛ فيؤخذ منه استحباب الدعاء بها هنا أيضاً"اهـ

(2/169،ط:دارالفکر)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں