بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید میلادالنبی جائز ہے یا نہیں؟


سوال

عید میلادالنبی جائز ہے یا نہیں؟

جواب

       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا ذکر یا  آپ کے اوصاف ومحاسن اور عبادات ومعاملات کا ذکرحتٰی  کہ جس چیز کی ادنیٰ نسبت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو اس کا ذکر  یقیناً فعلِ مستحسن اور باعثِ اجروثواب ہے، یقیناً آپ علیہ السلام  کی دنیا میں آمد دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے،اس پر  ایک مسلمان کا  خوش ہونا فطری امر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں، البتہ  اس پر خوش ہونے کا وہی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے جو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، یا صحابہ وتابعین نے اس پر عمل کیا ہو،  یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین  کی حقیقی پیروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہی تقاضا ہے۔

صورت مسئولہ میں  چوں کہ مروجہ میلاد کا ثبوت قرآن وحدیث اور صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین میں سے کسی سے نہیں ہے، بلکہ یہ  بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ بدعات میں  سے ہے،اوربہت ساری خرافات پر مشتمل ہے، لہذا اس  کا ترک کرنالازم ہے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(عن عائشة رضي الله عنها) : بالهمز وأما بالياء فلحن عامي (قالت) ، أي: روي عنها أنها قالت: (قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (من أحدث) ، أي: جدد وابتدع أو أظهر واخترع في أمرنا هذا) ، أي: في دين الإسلام، وفي إيراد اسم الإشارة بدلا أو صلة إفادة التعظيم، وإشارة إلى تمييز الدين أكمل تمييز، وعبر عنه بالأمر تنبيها على) أن هذا الدين هو أمرنا الذي نهتم له ونشتغل به بحيث لا يخلو عنه شيء من أقوالنا وأفعالنا. قال القاضي: الأمر حقيقة في القول الطالب للفعل، مجاز في الفعل والشأن، والطريق أطلق هنا على الدين من حيث أنه طريقه وشأنه الذي يتعلق به (ما ليس منه) : كذا في " الصحيحين "، والحميدي و " جامع الأصول " و " شرح السنة " وفي " المشارق " وبعض نسخ المصابيح ما ليس فيه (فهو) ، أي: الذي أحدثه (رد) ، أي: مردود عليه. قال ابن حجر: ويصح الكسر اهـ.

والصواب أنه غير مراد لأنه على ما في " القاموس ". بمعنى العماد. قال القاضي: المعنى من أحدث في الإسلام رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه، قيل: في وصف الأمر بهذا إشارة إلى أن أمر الإسلام كمل وانتهى وشاع وظهر ظهور المحسوس بحيث لا يخفى على كل ذي بصر وبصيرة، فمن حاول الزيادة فقد حاول أمرا غير مرضي لأنه من قصور فهمه رآه ناقصا، فعلى هذا يناسب أن يقال: إن (هو) راجع إلى (من) أي فذلك الشخص ناقص مردود عن جنابنا مطرود عن بابنا، فإن الدين اتباع آثار الآيات والأخبار واستنباط الأحكام منها، فالضمير إلى الشخص أبلغ وإلى الأمر أظهر، وفي قوله: ما ليس منه إشارة إلى أن إحداث ما لا ينازع الكتاب والسنة كما سنقرره بعد ليس بمذموم. (متفق عليه) . ورواه أبو داود، وابن ماجه، وذكر في " الأربعين النووية "، وفي رواية لمسلم: (من عمل عملا) أي من أتى بشيء من الطاعات أو بشيء من الأعمال الدنيوية والأخروية سواء كان محدثا أو سابقا على الأمر ليس عليه أمرنا، أي: وكان من صفته أنه ليس عليه إذننا بل أتى به على حسب هواه فهو رد.، أي: مردود غير مقبول، فهذه الرواية أعم، وهذا الحديث عماد في التمسك بالعروة الوثقى، وأصل في الاعتصام بحبل الله الأعلى، ورد للمحدثات والبدع."

(کتاب الإيمان ،باب الاعتصام بالكتاب والسنة، 222/1، ط: دار الفكر)

مسندِ احمد میں ہے:

"عن جابر، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: فحمد الله، وأثنى عليه بما هو له أهل، ثم قال: " أما بعد، فإن أصدق الحديث كتاب الله، وإن أفضل الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، ‌وكل ‌بدعة ‌ضلالة ."

(مسند جابر بن عبد الله، 22/237، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ : "حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، جس میں اللہ تعالٰی حمد وثناء بیان کرنے کے بعد فرمایاکہ سب سے زیادہ سچی بات اللہ کی کتاب ہےاور سب سے افضل طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بد ترین امور نئے ایجاد کردہ امور ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"

کفایت المفتی میں ہے:

"رہا عید میلاد منانا تو یہ کوئی شرعی چیز نہیں ہے، نہ سلفِ صالحین اور صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عید میلاد منائی، نہ منانے کی ہدایت کی، حدیث شریف  کی کتابیں اس عید میلاد کے ذکر سے خالی ہیں۔"

(کتاب العقائد، آٹھواں باب اختلافی مسائل، فصل اول مسئلہ عید میلاد، 147/1، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں